فنکار سیاست میں آئے تو ’’ہاتھ گندے‘‘ ہو جاتے ہیں: راحت کاظمی

تفریح
لاہور: (دنیا میگزین) اگر فنکاراس جانب آ جائے تو بہت سی انگلیاں اٹھ جاتی ہیں۔ ہماری ملکی سیاست میں فنکاروں کو کبھی سیاسی میدان میں کامیابی نہیں ملی.
ملک وبیرون ملک میں اپنی فنی اور تعلیمی شعبوں میں خداداد صلاحیتوں کی بنا پر منفرد شناحت بنانے والے فلم، ٹی وی اور تھیٹر کے فنکار راحت کاظمی 30 جون 1946ء کو شملہ (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے والدین ہجرت کرکے لاہور آ گئے۔ شوبز انڈسٹری میں راحت کاظمی کا شمار اعلیٰ تعلیم یافتہ فنکاروں میں ہوتا ہے۔
انہوں نے ایم اے (سیاسیات)، ایم اے (انگلش) اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1968ء میں سول سروس سے وابستہ ہوئے۔ انفارمیشن آفیسر تھے مگر 1976ء میں اندر کے فنکار کی تسکین کے لئے مستعفی ہو گئے۔ انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1967ء میں ٹی وی ڈرامے ’’گونج‘‘ سے کیا۔
ان کے قابل ذکر ڈراموں میں انارکلی، قربتیں اور فاصلے، تیسرا کنارہ، دھوپ کنارے، کارواں، ننگے پاؤں، ٹریفک، رگوں میں اندھیرا، پرچھائیاں، احساس اور دیگر شامل ہیں۔
انہوں نے راحت کاظمی شو اور کامیڈی شوز بھی پیش کئے۔ فلمی کیریئر کے دوران فلمیں آج اور کل، انسانیت، سورج بھی تماشائی، مہمان، مٹھی بھر چاول، خاندان، صائمہ، آزمائش، آس پاس، جان من دیگر میں کام کیا۔ ٹی وی اداکارہ اور پروڈیوسر ساحرہ کاظمی سے 1974ء میں شادی کی۔ ان کے دو بچے علی کاظمی اور ندا کاظمی ہیں۔ دونوں بچوں نے ڈرامے کئے۔
بعد ازاں ندا کاظمی نے حوا کی بیٹی اور زیب النسا کی سیریلز میں کام کرنے کے بعد اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اپنے شوہر کے ساتھ خوش وخرم زندگی کے دن بسر کر رہی ہے جبکہ علی کاظمی متعدد ڈراموں اور فلموں میں کام کر چکے ہیں۔
پاکستان سمیت بھارتی اور ہالی ووڈ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ ان دنوں ٹی وی اور ملکی فلموں میں مصروف ہیں۔ راحت کاظمی آج کل نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس سے وابستہ ہیں جہاں میڈیا کے طالب علموں کو ڈرامے کے اسرار ورموز سے آگاہی دے رہے ہیں۔
اس دوران انہوں نے کئی سٹیج ڈراموں میں پرفارمنس کے علاوہ ہدایتکار کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ اس سے قبل وہ نجی طور پر کئی تھیٹر ڈرامے پیش کر چکے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں میں وہ میڈیا سائنس، ڈرامہ و تھیٹر دیگر موضوعات پر طالب علموں کو آگاہی دیتے رہے۔
ان کے والد وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے، وہ اپنے صاحبزادے کو بھی اپنے نقش قدم پر چلانے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے اپنی ہائی سکول تعلیم راولپنڈی میں مکمل کی۔ بعد ازاں والد کی خواہش پر لاہور ایل ایل بی کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے سیاسیات اور پنجاب یونیورسٹی سے انگلش ادب میں ماسٹر کیا۔
راحت کاظمی: فنکار بزدل اور خاموش طبیعت کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں بہت کم سیاسی جراثیم ہوتے ہیں لیکن سابق صدر پرویز مشرف نے آرٹ و کلچر کے لئے وہ کچھ کیا جو کسی اور نے نہیں کیا۔ انہوں نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) بنا کر وہ کام کیا ہے کہ آج مڈل کلاس کے بچے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ مختلف چینلز اور اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے لئے روزگار کے دروازے کھل رہے ہیں۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ پرویز مشرف کو جو لوگ اب نظر انداز کر رہے ہیں، وہ وقت کے ساتھ چلنے والے لوگ ہوتے ہیں، چڑھتے سورج کو سب پوجتے ہیں۔
دنیا: فلم انڈسٹری کی بحرانی کیفیت کے بارے میں کیا کہیں گے؟
راحت کاظمی: فلم انڈسٹری کا زوال 1977ء میں ضیا الحق کے آنے کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس دور میں فلمیں اچھی بنیں اور بظاہر فلم انڈسٹری عروج پر نظر آ رہی تھی لیکن فلموں اور ڈراموں کی پالیسی نے آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھایا۔ جب اثرات رونما ہونے لگے تو میرے گھر ہی میں ندیم، شبنم، روبن گھوش اور پرویز ملک سمیت کئی اداکار جمع تھے۔ ہم نے اس وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ اب فلموں کا مستقبل نہیں رہا۔ ندیم ڈھاکا اور شبنم، روبن گھوش اور پرویز ملک امریکا چلے گئے، میں کراچی آ گیا۔ ضیا الحق کی پالیسیوں کی وجہ سے فلم اور ٹی وی ڈراموں پر بھی منفی اثرات پڑے۔ شوبز انڈسٹری بحران کا شکار ہو گئی۔
دنیا: اب فلم انڈسٹری کی بحالی کیسے ہوگی؟
راحت کاظمی: اب زمانہ بدل چکا ہے۔ فلم انڈسٹری کو نئے خون کی ضرورت ہے۔ نئے عزم کے ساتھ نئے لڑکے آگے آ رہے ہیں۔ اگر نیا خون جذبے سے کام کرتا رہا تو فلم انڈسٹری کا ری وائیوال ہو جائے گا۔ اس وقت کئی فلمیں زیر تکمیل ہیں جس میں نئی نسل کے نمائندے مصروف عمل ہیں۔
دنیا: کہا جا رہا ہے کہ نئے لڑکے ٹی وی ڈراموں کے انداز میں فلمیں بنا کر پیش کر رہے ہیں؟
راحت کاظمی: ایسا نہیں ہے۔ فلم انڈسٹری کی بحرانی صورتحال میں ناصرف فلم انڈسٹری تباہ ہوئی بلکہ سینما انڈسٹری بھی تباہی کا شکار ہوئی۔ ان کی جگہ پلازے اور مالز بن گئے۔ فلیٹس بنا کر سینما کلچر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ ٹی وی ڈراموں کا راج رہا، ان ڈراموں کا اثر ناظرین کے ذہنوں پر ہی نہیں فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد پر بھی ہے۔ وہ ہر فلم کو اسی زوایہ سے دیکھتے ہیں۔ ٹی وی اداکاروں نے کام کرکے اپنے آپ کو منوایا، اب وہ فلموں میں کام کرکے منوا رہے ہیں۔ ان ہی لوگوں نے فلمسازی شروع کر دی ہے۔ بیشتر تو ہدایتکار بن گئے ہیں۔ ان فلموں کا بزنس اب کروڑوں میں ہونے لگا ہے۔
دنیا: ڈیجیٹل دور میں جدید سینما گھروں نے فلموں کو دوام دیا ہے لیکن عام فلم بین دور ہو گیا ہے۔ آپ کا کیا کہنا ہے اس بارے میں؟
راحت کاظمی: کسی حد تک آپ کا کہنا درست ہے۔ جدید سینما کا کلچر بھی فروغ پا رہا ہے۔ اس بنا پر نئی فلموں کو پذیرائی مل رہی ہے لیکن یہ پہلو افسوس ناک ہے کہ جدید سینما اب ہماری عوام سے دور ہے اس کی وجہ مہنگے ٹکٹ ہیں۔ عام فلم بین سینما کو آباد کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
دنیا: سرکاری سطح پر سینما اور فلم کے استحکام کے لئے آپ کی نظر میں کیا ہونا چاہیے؟
راحت کاظمی: اس کے لئے حکومت کو پالیسی بنانی ہوگی۔ معیاری اور اچھی فلموں کے فروغ کے لئے ادارہ بنانا ہوگا۔ ماضی میں نیف ڈیک کا ادارہ بنایا گیا تھا۔ اس نے اچھا کام نہیں کیا، اس کو بند کرنا پڑا۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے ادارے ہیں، وہ فلم پروڈکشن کے لئے فنڈنگ دیتے ہیں۔ فلم کے لئے کاغذی تیاریاں ہیں نہ ادارے ہیں۔ میڈیا سٹڈی کے لئے بھی ادارہ نہیں، اگر واقعی ہم فلم انڈسٹری کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو فلم سکولز بنائے جائیں۔ تھیٹر کے لئے ناپا بنا تو دیکھئے کراچی میں تھیٹر ہونے لگا۔ اب کراچی میں بیک وقت چار چار تھیٹر ڈرامے ہوتے ہیں۔ اس میں تربیت پانے والے فنکار اور ہدایتکار کام کرتے نظر آتے ہیں۔ فلم انڈسٹری بھی ایک بار پھر عروج حاصل کر سکتی ہے۔
دنیا: فلموں میں کام کیا، ان میں آپ کی پسندیدہ فلم کون سی ہے؟
راحت کاظمی: ہدایتکارہ سنگیتا کی فلم مٹھی بھر چاول بہت پسند ہے نہ جانے کیوں لوگوں نے اس کو زیادہ پسند نہیں کیا۔ شاید یہ وقت سے پہلے بن گئی تھی۔ اس فلم کو دوبارہ بنانا چاہیے۔
دنیا: غیر ملکی ٹی وی ڈراموں کی چینلز پر مقبولیت کے بارے میں کیا کہیں گے؟
راحت کاظمی: اس حوالے سے مشتاق یوسفی نے کیا خوب کہا ہے کہ گالی، موسیقی، بیوی اور اپنی ثقافت ہی اچھی لگتی ہے۔ یہ ڈراموں کا سحر وقتی ہے۔ ہمارے ڈرامے کسی سے کم نہیں، اچھے برے ہدایتکار آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ناظرین کو بسا اوقات اپنے ڈرامے برے لگتے ہیں۔ (فلموں و ڈراموں میں کام کرنے کے سوال پر کہا) وقت کی کمی اور مصروفیات نے اب مجھے محدود کر دیا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو نئے خون کو تھیٹر، فلم اور ٹی وی کے حوالے سے تعلیم دیکر ان کی باریکیوں اور اسرار و رموز سے آگاہ کرنے میں مصروف ہوں۔
دنیا: سیاست میں ووٹ کی اہمیت کیا ہے، آپ کس کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں؟
راحت کاظمی: غیر سیاسی آدمی ہوں، ووٹ کاسٹ کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے، پرامن انتخابات ہر محب وطن پاکستانی کی خواہش ہوتی ہے۔ بم دھماکے اور دیگر دہشت گردی کی وارداتیں عوام کے حوصلے پست نہیں کر سکتیں۔ جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کے لئے ہر ووٹر کو اپنا ووٹ استعمال کرنا چاہیے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ ملک میں نہ ہو لیکن بیرون دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت ہے، وہاں ووٹر اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کرتا ہے۔ میں ووٹ کس کو دوں گا ؟ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے اس کو صیغہ راز میں رہنے دیں۔ فنکار پورے ملک کا ہوتا ہے۔ وہ کسی ایک پارٹی کو سپورٹ کرکے اپنے آپ کو محدود کر لیتا ہے۔ جب ووٹ کو خفیہ رائے شماری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو ہمیں حق ہے کہ ووٹ دینا کا معاملہ خفیہ ہی رہے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ سب کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی آ رہی ہے۔عمران خان اس تبدیلی کو لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ حق رائے دہی سب کا بنیادی حق ہے۔ اس حق کو استعمال کرنا چاہیے۔ میرا ووٹ عمران خان کے لئے تھا۔ ماضی میں ہم دیگر جماعتوں کو آزما چکے تھے۔ اس بار ایک موقع عمران خان کو دیا۔ عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لئے تعلیم یافتہ لوگوں کا میدان سیاست میں آنا وقت کا تقاضہ ہے۔ جعلی ڈگریوں کے قصے سن سن کر اور عدلیہ کے فیصلے دیکھ کر لوگوں میں کافی شعور آ چکا ہوگا۔ ایک غیر سیاسی آدمی انتخابات کے موسم میں جمہوریت کی آبیاری کے لئے کچھ نہ کچھ اپنے طور پر کرنا بھی چاہے تو لوگ اس کو کوئی اور رنگ دیتے ہیں۔
دنیا: دنیا بھر میں فنکار ملکی سیاست میں حصہ لیتے ہیں ہمارے فنکار کیوں انتخابات میں حصہ نہیں لیتے؟
راحت کاظمی: اگر فنکاراس جانب آ جائے تو بہت سی انگلیاں اٹھ جاتی ہیں۔ ہماری ملکی سیاست میں فنکاروں کو کبھی سیاسی میدان میں کامیابی نہیں ملی۔ ایک فنکار طارق عزیز ایم این اے بن جانے کے بعد بھی کچھ نہ کر سکا۔ اب کچھ فنکار میدان سیاست میں آئے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو بیٹھ چکے ہیں جو باقی بچے ہیں ان کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ سیاسی دھارے میں فنکاروں کا آنا دنیا بھر کے لئے ایک اچھا سائن ہے۔ ویسے تو بنیادی طور پر فنکار صلح جو اور امن کے داعی ہوتے ہیں جبکہ سیاسی میدان میں فنکاروں کے آنے سے ان کے ہاتھ پاؤں گندے ہونے کا ڈر رہتا ہے۔
دنیا: سیاسی جماعتوں میں فنکاروں کا کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں؟
راحت کاظمی: یہ ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ ان کے منشور میں فنکاروں کے بارے میں کیا ہے یا نہیں۔ البتہ ملکی مسائل بجلی کا بحران، گندم کی کاشت زرعی پالیسی، تعلیم کے منصوبے دیگر مسائل کے حل کے بارے میں دعویٰ کیے گئے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے اپنے منشور میں پاکستانی ثقافت کے بارے میں کو ئی پالیسی نہیں دی ہے۔ کلچر کے حوالے سے کوئی مستقبل کی پیش بینی نظر نہیں آتی۔ اب جو فنکار ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیں ان کو فکر کرنی چاہئے کہ پاکستانی سیاست میں فنکاروں کا کیا مستقبل ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے منشور بناتے ہوئے کلچر پالیسی ہی نہیں بنائی، اس کلچر کو منشور میں شامل ہی نہیں کیا،یہ بات کسی المیے سے کم نہیں، روشن خیالی کا نعرہ لگانے والی جماعتیں بھی اس حقیقت کوتسلیم کرتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔
دنیا: فینز کو کوئی پیغام دیں گے؟
راحت کاظمی: یہ ڈیجیٹل دور ہے، اس میں فین ازم اب ڈیجیٹل پر منتقل ہو گیا ہے۔ فینز اپنے فنکاروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ فنکار بھی جدید دور کی سہولیت سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ میرا کہنا ہے کہ سینئر فنکاروں کی عزت کریں اور جونیئر فنکار اپنے سینئرز کی قدر کریں، ان سے سیکھنے کی کوشش کریں۔