جنگ ستمبر 1965ء کیسے شروع ہوئی؟

پاکستان

لاہور: (خصوصی ایڈیشن) ستمبر 1965ء کی جنگ میں پاکستان کو کئی عالمی طاقتوں کے ساتھ بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔ منظر نامے پر سامنے بھارت تھا، لیکن پشت پر کئی بڑی طاقتیں تھپکی دینے میں لگی ہوئی تھیں۔

عالمی بیورو کریسی کا ایک بڑا حصہ اپنی رپورٹوں میں امریکی صدر سمیت اعلیٰ حکام کو ورغلانے میں مصروف تھے کہ پاکستان بہر صورت مسئلہ کشمیر حل چاہتا ہے اور حل کی تلاش جنگ کا پیشہ خیمہ بن سکتی ہے۔

کیونکہ بھارت کشمیر پر قبضہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں،لیکن اس جنگ سے پہلے کئی مرتبہ امریکہ نے یہ تسلیم کیا کہ مسئلہ کشمیر ا قوا م متحدہ کے ایجنڈے پر حل طلب معاملہ ہے ،دوسرا یہ کہ جب تک یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہو گا اس وقت تک خطے میں دیرپا امن کا قیام محض خواب ہو گا۔

امریکی رپورٹ ’’فارن ریلیشنز آف دی یونائیٹڈ سٹیٹس ‘‘ (Foreign Relations of United States) کی جلد 25 میں یہ بات منظر عام پر آ چکی ہے کہ امریکی رہنما سابق صدر ایوب اور دیگر رہنمائوں سے مسلسل رابطے میں تھے۔

بعد ازاں امریکی رہنمائوں نے یہ نہیں بتایا کہ سابق صدر ایوب خان کی بڑی پیش رفت کو بھارتی قائدین نے کیوں قبول نہیں کیا، ہندوستانی قیادت کیوں پیچھے ہٹی اور اس نے اقوام متحدہ کا پیش کردہ حل کس کے کہنے پر مسترد کیا؟ امریکی انتظامیہ اور اقوام متحدہ نے کیوں تساہل سے کام لیا، یہ کسی رپورٹ میں نہیں ہے۔

1965ء کے چیدہ چیدہ واقعات کا جائزہ لینے سے ہمیں سمجھ آ جائے گی کہ جنگ ستمبرمیں بھارت تنہا نہیں تھا ،کئی عالمی ممالک کی بیوروکریسی اس کی پشت پر تھی جس نے بھارت کو بتا دیا تھا کہ ’’پاکستان کیا سوچ رہا ہے،اور یہ امریکہ اپنے ہتھیار بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرنے دے گا‘‘۔

اس سے بھارت کو یہ سوچنے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ پاکستان شاید ہتھیاروں کی کمی کی وجہ سے جنگ لڑ ہی نہ سکے لیکن اسے یہ معلوم نہ تھا کہ ہماری فوج قیام پاکستان کے بعد عسکری صنعت کو اس قدر ترقی دینے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ وہ کسی بھی ملک کی محتاجی کے بغیر ہی جنگ لڑ سکتی تھی۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق ’’پاک بھارت جنگ کی صورت میں کئی محاذ کھل سکتے ہیں لیکن بھارتی فوج کی دلچسپی لاہور کو فتح کرنے میں ہے ‘‘۔

بھارت نہیں جانتا تھا کہ لاہور کی حفاظت پر میجر عزیز بھٹی جیسے ہزاروں جانثاربھارتی فوج کی لاشیں ڈال دیں گے اور ایسا ہی ہوا۔پاک فوج نے بھارتی سینا کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیئے۔

پاک بھارت سرحدی کشیدگی کی ابتدا اور بھارت کو شہ ملنے کے واقعات نے مارچ 1965 ء میں ہی جنم لینا شروع کر دیا تھا۔4مارچ 1965 ء کو امریکی ریاست نیو یارک کے گورنر ولیم ایورل ہیری مین سابق بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری سے ملے۔ نئی دہلی میں ہونے والی اس ملاقات میں کئی دیگر امریکی اور انڈین افسران بھی شامل تھے۔

انہوں نے شاستری کو امریکی تعاون کا یقین دلایا۔ دوران ملاقات بھارتی افسرایل کے جھا نے سوال اٹھایا کہ ’’ آیا کہ امریکی صدر اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں عالمی سیاسی منظر نامے میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذرا بھی علم نہیں ہے؟ ‘‘جواباََ ہیری مین نے واضح کیا کہ ’’ بلا شبہ معاشی صورتحال میںبہتری ان کی اولین ترجیح ہے لیکن وہ عالمی سیاست سے بھی بے خبر نہیں ہیں۔ایٹمی عدم پھیلائو بھی ان کی ترجیحات کا حصہ ہے‘‘۔ اور پھرہیری مین نے ایک ایسی بات کہہ دی جس سے شاستری کو سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو امریکہ پاکستان کی مدد کو نہیں آئے گا۔انہوں نے کہا کہ ’’ امریکہ کو چین کی ایٹمی صلاحیتوں کے بارے میں بھارت سے معلومات شیئر کرنے پر خوشی ہے، اور وہ آئندہ بھی ایسا کرتا رہے گا‘‘۔

بھارت کو اعلیٰ ترین سطح پر یہ سگنل مل چکا تھا کہ چین کی وجہ سے ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے کے حوالے سے بھارت کو کھلی چھٹی مل سکتی ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ ’’ شاستری بتائیں کہ اس حوالے سے انہیں امریکہ سے اور کیا مخبری درکار ہے‘‘؟

شاستری نے کھل کر کھیلتے ہوئے کہا کہ ’’ ہمیں اگرچہ ایٹمی حملے کے خطرے کا سامنا ہے لیکن بھارت ایٹم بم نہیں بنائے گاتاہم وہ اپنے بچائوکی تدابیر پر غورکر رہا ہے‘‘۔جواباََ امریکی گورنر ہیری مین نے چونکا دینے والی بات کی۔ کہتے تھے، ’’امریکہ بھارت کی ایٹمی سلامتی کے معاملات پر بات چیت کے لئے تیار ہے‘‘۔یہ کہہ کر انہوں نے ایٹمی حملے کی صورت میں ’چھتری (Umbrella) یا تحفظ(Shield) پر شاستری کو ولسن سے مذاکرات کرنے کا مشورہ دیا تھا۔کیونکہ ’’ان معاملات کو ولسن ہی دیکھ رہے تھے‘‘۔

اس موقع پر امریکہ نے بھارت کو ایک اور اہم سگنل دیا، سابق امریکی گورنر ہیری مین نے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا،سابق صدر ایوب پیکنگ (اب بیجنگ ) جانے والے تھے لہٰذا پاکستان جانے کا وقت نہیں تھا۔ ساتھ ہی شاستری کو دورہ امریکہ کی دعوت بھی مل گئی ۔یہ پاک امریکہ تعلقات میں خرابی کااہم موڑ تھا۔

بعد ازاں بھارت چین کے حوالے سے امریکہ کو اشتعال دلا کر اس کی حمایت حاصل کرتا رہا، اس کام میں امریکی انتظامیہ کھل کر بھارت کے ساتھ تھی۔ان رہنمائوں نے اعتراف کرنے میں ذرا دیرنہیں لگائی کہ ’’مسئلہ کشمیر پاک بھارت کشیدگی کا سبب بن سکتی ہے لیکن دونوں ممالک کی قیادت ان مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘‘۔

سابق صدر پاکستان ایوب خان یہ جان گئے تھے کہ وہ امریکی رہنمائوںکے بھارت کی جانب بڑھتے ہوئے جھکائو پر اثر اندا زنہیں ہو سکتے۔ چنانچہ انہوں نے ،معاشی اورعسکری حوالوں سے ملک کو امریکہ یا کسی اور ملک کی محتاجی میں دینے کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب رہے۔

اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو کے ایک بیان پر امریکہ میں ہنگامہ برپا ہوگیا،انہوں نے کہا تھا ’’ بھارت کی جانب امریکہ کے بڑھتے ہوئے جھکائو سے سیٹو(Seato) اور سینٹو (Cento) کے معاہدے بے معنی ہو گئے ہیں‘‘۔پاکستان نے امریکی حمایت کے لئے شروع شروع میں ان دونوں معاہدوں پرتکیہ کیا تھا۔ امریکہ نے بھی کہہ دیا تھا کہ ’’یہ معاہدے بھارت کے خلاف نہیں ہیں‘‘۔اس امریکی رویے سے بھارتی قیادت کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

اپریل میں رن آف کچھ میں تصادم کی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہو گئیں۔امریکی انتظامیہ اپنی حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی تھی کہ بھارت بے گناہ ہے اور پاکستان اپنی فوج اگلے مورچوں پر لے آیا ہے۔ حالانکہ پاکستانی فوج اپنی سابق پوزیشنوں پرہی تعینات تھی۔ پھراقوام عالم اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ 1960ء میں ہونے والے پاک بھار ت سرحدی مذاکرات میں بھی سرحدکے کئی حصوں پر حتمی مذکرات نہیں ہو سکے تھے۔ لہٰذا پاکستانی فوج نے اپنے علاقے میں چوکیاں قائم کیں ،بھارت نے انہیں اپنا علاقہ قرار دے دیا۔ جیسے ان دنوں بھارت چینی علاقے پر قبضے کی کوشش میں اپنے دو درجن سے زائد فوجی مروا بیٹھا ہے ،اسی قسم کے جنگی عزائم بھارت نے 1965ء میں بھی ظاہر کئے تھے۔

رن آف کچھ کا تنازع

رن آ ف کچھ کے شمالی کونے پر’ کنجر کوٹ نامی قلعہ واقع ہے ،یہ علاقہ سال میں کئی مہینے(جون تا نومبر) پانی میں ڈوبا رہتا تھا۔ اس کے بارے میں 1960ء میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔یہاں تنازعہ جنوری 1965ء میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ پاکستانی دستے اپنے علاقے میں جب بھی گشت کرتے بھارتی فوج مداخلت کی کوشش کرتی جسے موقع پر ہی ناکام بنا دیا جاتا تھا۔امریکی رہنمائوں کی جانب سے مسلسل حمایت کے بعد بھارتی قیادت نے اپریل میں یہ محاذ گرم کر دیا۔اور ’’بائر بیٹ‘‘ (Biar Bet) کے ساحلی علاقے کو بھی اپنی حدود میں شامل کرنے کی غرض سے فوجی دستے اگلے مورچوں پر بھیج دیئے ۔ پاکستان نے سیز فائر کی کوششیں جاری رکھیں جنہیں 15اپریل کو بھارتی قیادت نے قبول کر لیا،لیکن یہ سیز فائر کبھی نہیں ہواکیونکہ بھارت توپ خانہ اور6سے 7ہزار فوج بھی جنگ میں جھونک چکا تھا۔ پاکستانی فوج کی تعداد بھی کم و پیش اتنی ہی تھی۔امریکہ اور تمام اہم یورپی ممالک اس پاک بھارت کشیدگی کو 1962ء کی چین بھارت جنگ کے پس منظر میں دیکھ رہے تھے ۔یعنی دلی طور پر وہ بھارت کے ساتھ تھیں۔ تاہم متعدد ایشیائی اور افریقی ممالک پاکستان کی تائید میں پیش پیش تھے۔

31اگست کو جنگ کے سائے پھیلتے جا رہے تھے، مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو دبانے میںناکامی کے بعد بھارت نے بڑے عالمی ممالک سے حمایت مانگ لی تھی،جو کسی حد تک مل بھی گئی تھی۔امریکی رہنمائوں نے کہہ دیا تھا کہ ’’جنگ کی صورت میں اقوام متحدہ کے لئے مداخلت کرنا مشکل ہوگا، اور شائد برطانیہ کے لئے بھی‘‘۔ تاہم اقوام متحدہ کے رہنما یو تھانٹ سے بھی عالمی رہنمائوں کی ملاقاتیں اور مشورے جاری تھے۔ یکم ستمبر کو بھارت بکتر بند گاڑیاں اگلے مورچوں پہ لے آیا ۔مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد کی روک تھام کے لئے بھارت نے پاکستانی سرحدوں پر دبائو میں اضافہ کر دیا۔ پاکستا ن کی جانب سے امریکی ساختہ Patton ٹینکوں کے ممکنہ استعمال کے باعث بھارت نے ایک بار پھر امریکہ سے مدد مانگ لی۔اور اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ نے کئی بیانات داغے،خطووط لکھے۔2ستمبر کو امریکی رہنما باولز (Bowels) نے اپنی حکومت سے التجا کی کہ ’’وہ (امریکی حکومت)شاستری کو یقین دلائے کہ جنگ کی صورت میں امریکہ پاکستان کی تمام فوجی امداد بند کر دے گا‘‘۔اس فیصلے سے سب ہی آگاہ تھے۔بھارت کو خدشہ تھا کہ ’’کشمیری مجاہدین نے اگر جموں سرینگر روڈ پو قبضہ کر لیا تو کشمیر پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا‘‘(امریکی رہنما سسکو)۔

کئی اطراف سے آشیر باد پا کر 6ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر تین محاذوں سے حملہ کر دیا،جسڑ،لاہور مغل پورہ سیکٹر اور بیدیاں لنک کینال کے بارڈر کھول دیئے گئے۔ ہمیشہ کی طرح چوکس پاک فوج نے تینوں محاذوں پر نہ صرف پیش قدمی روک دی بلکہ متعدد بھارتی سرحدی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔بھارت نے کھاریاں تک قبضہ کرنے کے لئے 75بٹالینز جنگ میں جھونک دی تھیں لیکن اسے پھر بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔تین جنگوں کا پیش خیمہ بننے والا مسئلہ کشمیر آج بھی اقوام متحدہ کی توجہ کا طلبگار ہے ،اس مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی پامالی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ امریکہ کی فائلوں میں بھی لکھا ہے کہ ’’مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک خطے میں دیر پاء امن کا قیام مشکل ہے‘‘۔

(تحریر: صہیب مرغوب)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں