دنیا کے امیرترین لوگوں کی اربوں ڈالر میں کمائی، ٹیکس شرح نہ ہونے کے برابر

لاہور: (ویب ڈیسک) ٹیکس چوری صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا بھی المیہ بن گئی، دنیا کے ایک فیصد امیر ترین لوگوں نے ایک دہائی میں 40 کھرب ڈالر کمائے لیکن ان کی ٹیکس دینے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

غیر سرکاری تنظیم آکسفیم نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں اس نے دنیا کے ایک فیصد امیرترین لوگوں کے ٹیکس نہ دینے کا کچا چٹھہ کھولا ہے، رپورٹ برازیل میں جاری جی 20 ممالک کے اجلاس کے موقع پر شائع کی گئی ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں امیرترین شخصیات پر ٹیکس لگانا ایجنڈے میں سرفہرست ہے، گزشتہ ایک دہائی میں امیروں پر ٹیکس تاریخی حد تک گر گیا، ان ایک فیصد امیروں کا مقابلہ باقی دنیا کے ساتھ کسی طرح ممکن نہیں۔

امریکا امیروں پر ٹیکس لگانے کا مخالف
جہاں تنظیم کے ممالک فرانس، سپین، جنوبی افریقہ، کولمبیا اور افریقی یونین امیروں پر ٹیکس لگانے کے حامی ہیں وہیں امریکہ اس تجویز کا سخت مخالف ہے لیکن برازیل نے اس سلسلے میں پہل کر ڈالی ہے اور اس نے امیر ترین لوگوں پر ٹیکس عائد کر دیا۔

اجلاس میں وزرائے خزانہ سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ انتہائی دولت مندوں پر محصولات بڑھانے اور ارب پتیوں کو ٹیکس کے نظام کو چکما دینے سے روکنے کے طریقوں پر پیش رفت کریں گے، اس اقدام میں ارب پتیوں اور دیگر زیادہ آمدنی والے افراد کے ٹیکس کے طریقہ کار کا تعین کرنا شامل ہے۔

سالانہ 8 فیصد ویلتھ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز
آکسفیم نے اس اجلاس کو "جی 20 حکومتوں کے لیے حقیقی لٹمس ٹیسٹ" قرار دیا ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ انتہائی امیروں کی "انتہائی دولت" جسے "ویلتھ" بھی کہتے ہیں ان پر کم از کم آٹھ فیصد سالانہ کے حساب "ویلتھ ٹیکس" عائد کیا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا میں ارب پتی اپنی دولت پر اعشاریہ پانچ فیصد سے کم شرح کے برابر ٹیکس ادا کر رہے ہیں جبکہ یہ 42 کھرب ڈالر دنیا کی نصف غریب آبادی کی مجموعی دولت سے تقریباً 36 گنا زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ اس رپورٹ کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ یہی ترقی یافتہ ملک اس لوٹی ہوئی دولت کا بنک ہیں کیونکہ دنیا کے پانچ میں سے 4ارب پتی جی 20 ممالک میں رہتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں