اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی پر عالمی اداروں کی شدید مذمت
لاہور: (ویب ڈیسک) سال 2024 اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، اس کے ساتھ ہی اسرائیلی صیہونی فورسز کے معصوم فلسطینیوں پر بربریت بارے عالمی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں، اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی پر عالمی اداروں کی جانب سے شدید مذمت کی جارہی ہے۔
عالمی تشخص کے حامل بین الاقوامی اداروں کے مابین اسرائیل کے فلسطین کی غزہ پٹی پر ڈھائے جانے والے مظالم اور نسل کشی پر پر اتفاقِ رائے پیدا ہو رہا ہے۔
5 دسمبر کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تحقیقات کے بعد کہا کہ "اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی ہے اور وہ بدستور یہ عمل جاری رکھے ہوئے ہے"، اس کے کچھ دن بعد، یورپی سنٹر فار کنسٹیٹیوشنل اینڈ ہیومن رائٹس (ECCHR) کی جانب سے کہا گیا کہ "اس حوالے سے ایک مضبوط قانونی دلیل موجود ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کر رہا ہے"۔
ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے اعلان کیا کہ "اسرائیلی حکام انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمہ دار ہیں، جن میں نسل کشی کے اقدامات شامل ہیں"، میڈیسن سانز فرنٹیئرز نے رپورٹ کیا کہ اس کے طبی عملے کو غزہ کے شمالی علاقے میں "نسل کشی " کے واضح آثار مل رہے ہیں۔
نومبر میں ہیومن رائٹس واچ نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات "جنگی جرائم" اور "انسانیت کے خلاف جرائم" کی شکل میں آتے ہیں۔
اس کے بعد بینجمن نیتن یاہو اور یوآو گالانٹ کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، ان تمام فیصلوں نے سال کے آخر میں غزہ میں اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر پیش کیا ہے۔
یہ فیصلے عالمی کمیشن آف جورسٹس اور اقوام متحدہ کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کی مذمت کرتے ہیں، اب عالمی عدالتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیل اور اس کے سربراہ قانونی اور اخلاقی طور پر بغاوت کے مرتکب ہیں تاہم ان فیصلوں اور شدید الفاظ میں کی جانے والی مذمتوں کے باوجود عملی طور پر کچھ نہیں بدلا۔
امریکہ مسلسل اسرائیل کا دفاع کرتا رہتا ہے اور اس کی حمایت میں مسلسل اسلحہ فراہم کرتا ہے اس کے باوجود کہ عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط اتفاق رائے بن رہا ہے۔
برطانیہ نے اپنی اسلحہ برآمدات کا ایک چھوٹا حصہ معطل کر دیا ہے لیکن پھر بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو "مضبوط اتحادی" کے طور پر جاری رکھنے کی بات کرتا ہے اور نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کرنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔
فرانس نے ایک قانونی تشریح پیش کی ہے جس میں کہا گیا کہ نیتن یاہو کو اس لئے استثنیٰ حاصل ہے کیونکہ اسرائیل ICC کا رکن نہیں ہے حالانکہ اس تشریح کا اطلاق عمر البشیر جیسے افراد پر بھی ہوتا ہے۔
دوسری طرف، غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کے حوالے سے مزید شواہد سامنے آ رہے ہیں جو نہ صرف قانون کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی پامالی کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ یہ ایک تاریخی حملہ بھی ثابت ہو رہا ہے۔
ایئر وارز (تنظیم) جو شہری ہلاکتوں کی نگرانی کرتی ہے نے کہا کہ "تقریباً ہر پیمانے پر غزہ میں اسرائیلی مہم کے پہلے مہینے میں شہریوں کو پہنچنے والا نقصان 21ویں صدی کی کسی بھی فضائی کارروائی کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا"۔
تحقیق کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے اعترافات اور بیانات بھی سامنے آئے ہیں، جن میں یہ بیان کیا گیا کہ غزہ میں بچوں سمیت عام شہریوں کو جنگجو سمجھا جا رہا ہے، اسرائیلی اخبار ہارٹز میں ایسے فوجیوں کے بیانات شائع ہوئے جنہوں نے غزہ میں اپنی خدمات انجام دیں اور کہا کہ شہریوں، یہاں تک کہ بچوں کو، جنگجو تصور کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی فوجیوں کے یہ بیانات صرف قانونی اور فوجی طریقوں کی وضاحت نہیں کرتے بلکہ قتل، بھوک، جسمانی تشدد، تشویش اور ذہنی اذیت کو بھی بیان کرتے ہیں جسے سمجھنا بھی مشکل ہے۔
ان تحقیقات میں ایک قتل عام کا منظر ہے جو صاف نظر آ رہا ہے، لائیو اسٹریم اور فلسطینی شہریوں اور صحافیوں کے ذریعے پوسٹ کیا جا رہا ہے، باہر کے لوگ یہ دیکھ رہے ہیں حتیٰ کہ اسرائیلی خود بھی اسے بیان کر رہے ہیں۔
اس شدید اور غیر متنازع شواہد کے باوجود کچھ نہیں بدل رہا اور جنگ جاری ہے، وہ چیزیں جو پہلے بریک تھرو کے طور پر سامنے آئیں، جیسے بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کی پہلا سماعت، اب صرف مشاہدے کی مشقیں نظر آ رہی ہیں، یہ ایک ایسی حالت ہے جو انتہائی مایوس کن ہے، اور انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کوئی بھی فریق، چاہے وہ کتنے ہی سنگین جرم کیوں نہ کرے، اسے روکا نہیں جائے گا یا انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا۔
اسرائیل کے اتحادی نسل کشی اور نسلی صفائی کی اصطلاحات کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے، اور ان پر عمل کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے، دنیا کو ایک ایسا زاویہ دینے پر مجبور کر رہے ہیں جس کے بعد یہ صرف یہ تسلیم کیا جائے گا کہ حقوق انسانیت سے نہیں، بلکہ وہ قوتیں جو فیصلہ کرتی ہیں کہ کون انسان ہے، اسی لئے اسرائیلی مظالم کیخلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہنا ضروری ہے، چاہے وہ محض رپورٹنگ اور نوٹس لینے کی حد تک محدود ہو جائے
یورپ اور امریکہ کے مختلف پلیٹ فارمز پر جو بھی بیانات دیے جائیں یہ رپورٹس اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ ایک جرم ہو رہا ہے ، غزہ میں لوگوں کے حقوق زمین پر مٹ چکے ہیں، لیکن جب یہ جنگ ختم ہو گی، تو یہ اکاؤنٹس تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوششوں کو روکے یا کم از کم کمزور کریں گے اور ان مظالم کا انکار نہیں کرنے دیں گے۔