امریکا بھارت کو مذاکرات کیلئے تیار کرے :بلاول بھٹو
واشنگٹن(نیوز ایجنسیاں،مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا میں موجود پاکستانی وفد کے سربراہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا جنگ بندی محض ایک آغاز،پوری دنیا آج زیادہ غیرمحفوظ ہے۔۔۔
امریکا بھارت کو مذاکرات کیلئے تیار کرے ،پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کیلئے تیار ہے ، لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازع کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے ۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں بلاول نے کہا جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے ہماری حوصلہ افزائی میں کردار ادا کیا، میں سمجھتا ہوں کہ اب انہیں دونوں فریقین کو جامع مذاکرات کی جانب راغب کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔میرا خیال ہے ہمارے دو بڑے ممالک کے 1.7 ارب عوام کی قسمت ان بے چہرہ، نامعلوم غیر ریاستی عناصر کے ہاتھ میں نہیں چھوڑی جا سکتی، اور یہ جو انڈیا خطے پر ایک نیا معمول مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر انڈیا میں کہیں بھی کوئی دہشت گرد حملہ ہو تو کوئی ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت نہیں، سیدھا جنگ کا راستہ اختیار کیا جائے ۔اور اگر پاکستان میں کوئی دہشت گرد حملہ ہو تو باہمی اصول کے تحت ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہو گا۔ اس طرز عمل نے دو جوہری طاقتوں کے درمیان فوجی تصادم کا خطرہ خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے ۔مجھے انڈین حکومت کی ہچکچاہٹ کی بالکل سمجھ نہیں آتی۔پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی پر بات کرنے کے لیے تیار ہے لیکن کشمیر کو بنیادی تنازع کے طور پر میز پر لانے کی ضرورت ہے ۔ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک خطرناک مثال قائم کر رہا ہے جس کے تحت کوئی بھی ملک دہشت گردانہ حملہ ہونے کی صورت میں جنگ چھیڑ نے کا بہانہ گھڑ سکتا ہے ۔صدر ٹرمپ نے ایک نہایت خطرناک تصادم کو روکنے میں مدد کی، جہاں کشیدگی تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔ انڈیا نے پاکستان میں ایسے میزائل فائر کیے جو جوہری یا روایتی دونوں اقسام کے ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان پر جوہری ہتھیار موجود نہیں تھے ، مگر پاکستان کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے صرف 30 سیکنڈ ہوتے ہیں کہ آیا یہ جوہری میزائل ہے یا نہیں۔ جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے لیکن یہ محض ایک آغاز ہے ، حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا، بھارت ، پاکستان اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا، آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہے ۔دریں اثنا بلاول بھٹو نے بھارت کی جارحیت کامعاملہ ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے مدلل انداز سے اٹھا دیا،دورہ امریکا کے آخری روز انہوں نے وفد کے ہمراہ امریکا کی انڈر سیکرٹری برائے امور خارجہ ایلیسن ہوکر سے واشنگٹن ڈی سی میں ملاقات کی، بلاول بھٹو نے کہا کہ جنگ بندی جیسے مشکل مرحلے کے حصول پر امریکی قیادت تعریف کی مستحق ہے ، انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکی انتظامیہ کی یہ معاونت جنوبی ایشیا میں ڈائیلاگ کے ذریعے دیرپا امن اور استحکام کا موقع پیدا کرے گی۔علاوہ ازیں بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد نے پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی میزبانی میں منعقدہ عشائیے کے دوران ری پبلکن اور ڈیموکریٹ امریکی قانون سازوں کے گروپ سے بھی ملاقات کی۔انہوں نے کہا بھارت کی 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کی دھمکی ایک وجودی خطرہ ہے ، اگر بھارت نے یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہوگا۔امریکی قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور وفد کے دورے کو ‘‘امن کا مشن’’ قرار دیا۔مزید برآں بلاول نے امریکا کے چیئرمین سینیٹ سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس سینیٹر ٹام کاٹن (ریپبلکن آرکنساس) سے بھی کیپیٹل ہِل میں ملاقات کی،بلاول کی امریکی کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین برائن ماسٹ، رینکنگ ممبر گریگوری میکس، جنوبی و وسطی ایشیا سے متعلق ذیلی کمیٹی کے چیئرمین بل ہائزنگا، اور سینئر کانگریس مین بریڈ شرمین سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، بلاول نے کہا سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنا ایک خطرناک نظیر اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔ادھر پاکستانی وفد کی رکن سینیٹر شیری رحمان نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کو امن نہ سمجھا جائے ، یہ نہایت نازک اور کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے ۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حالیہ 87 گھنٹوں کی کشیدگی محض ‘ٹریلر’ تھا جبکہ اصل خطرہ باقی ہے ۔ جنوبی ایشیا میں جوہری تصادم ناقابل کنٹرول ہو گا اور پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنے دفاع کا مکمل حق رکھتا ہے ۔