اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئی ایم ایف پروگرام پر نظر ثانی کی ضرورت

وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کو ناجائز مطالبہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گردشی قرضہ کم کریں گے مگر ٹیرف میں اضافے کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ وزیر خزانہ کا نقطہ نظر پاکستانی معیشت کی حرکیات کو سمجھنے والے اکثر افراد کے تاثرات کی نمائندگی کرتا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ جب ملک میں معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بجلی کی قیمتوں میں بے تکا اضافہ ان کوششوں پر پانی پھیر دے گا۔برآمدی مصنوعات کی پیداوار میں مسابقتی قوت پاکستان کے لیے پہلے ہی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہماری صنعتوں کو اس خطے کے تقریباً تمام ممالک کے مقابلے میں مہنگی بجلی کی شکایت رہتی ہے ‘ ایسے میں مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ قدرتی امر ہے جس سے ان اشیا کی برآمدی قدر میں نمایاں کمی واقع ہو تی ہے؛چنانچہ برآمدی صنعت کو تقویت فراہم کرنے کے لیے توانائی کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے، تاہم آئی ایم ایف کے مطالبات اس زمینی حقیقت کے برعکس ہیں ‘ وہ قیمتوں میں کم از کم 36 فیصد اضافہ اور سبسڈیز کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

آئی ایم ایف کے نزدیک پاکستان کے پاور سیکٹر کے خسارے سے نمٹنے کا یہی حل ہے بصورت دیگر بجلی کے گردشی قرضے تین ہزار ارب روپے سے تجاوز کر جائیں گے؛ تاہم وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ وہ گردشی قرضے کم کریں گے جبکہ ٹیرف بڑھانے کی انہوں نے مخالفت کی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ گردشی قرضے ہمارے پاور سیکٹر کے لیے دلدل بن چکے ہیں۔اس سال جنوری کے پہلے ہفتے کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران گردشی قرضوں کا حجم 2360 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ مذکورہ پانچ ماہ کے دوران ان قرضوں میں 156 ارب یعنی ماہانہ قریب 31 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس حساب سے دیکھیں تو نومبر2020 سے اب تک پانچ ماہ کے دوران یہ قرض قریب 2500 ارب روپے تک پہنچ چکا ہو گا۔ جون 2018 ء میں یہ قرض 1126 ارب روپے تھا۔ قریب تین برس میں ان قرضوں میں دوگنا سے زیادہ اضافہ کیونکر ہوااس کا حساب کتاب بھی کرنا ہو گا۔ اگر بجلی کے ٹیرف کو نہ بڑھانا ضروری ہے تو گردشی قرضوں میں بے تحاشا اضافے کی روک تھام کا کوئی حل تلاش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔ اگر ان قرضوں کی مینجمنٹ کا کوئی مؤثر حل نہ نکالا گیا تو ان کے نتائج بے پناہ خطرناک ہوں گے؛ تاہم اس سلسلے میں حکومت کی اب تک کی پالیسی ناقص ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو گردشی قرضوں کی کوئی فکر ہی نہیں تھی‘ اگر فکر کی جاتی تو صورتحال یقینا اس قدر بھیانک روپ اختیار نہ کر لیتی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین اگر ان قرضوں سے نمٹنے کا اشارہ دیتے ہیں تو اس کے لیے انہیں عملی پیش رفت بھی کرنا ہو گی۔ حقیقت میں بجلی کے شعبے کو آئی ایم ایف کے چنگل سے بچانے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ ان قرضوں کو اتارنے کا کوئی بندوبست کیا جائے۔ اس سلسلے میں ریکوری بڑھانے اوربجلی کی چوری روکنے کے انتظامات کو بہتر بنانا ہو گا۔پچھلے اڑھائی سے تین برس کے دوران اس معاملے میں زبردست کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا ورنہ ایک ہزار ارب روپے کے لگ بھگ قرضوں میں اس محدود عرصے میں سو فیصدسے زائد اضافہ نہ ہو تا۔ اس کوتاہی نے عالمی مالیاتی اداروں اور سرمایہ کاروں کے لیے پاکستانی پاور سیکٹر کی ناکامی کے شواہد پیدا کئے ہیں۔ حکومت اگر چاہتی تو بجلی کے بلوں کی وصولی اور چوری کی روک تھام یقینی بنا کر قرضوں کے اس طوفان کو تھام سکتی تھی مگر اس ضمن میں حکومت کی ناکامی نے پاور سیکٹر کا خسارہ کم کرنے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا جواز پیدا کیا۔ اب نئے وزیر خزانہ جو بات کر رہے ہیں وہ عملاً مشکل تو ہے مگر حقیقت پر مبنی ہے کہ نرخوں میں اضافے سے مہنگائی اور کرپشن بڑھ رہی ہے۔ معیشت جو پہلے ہی مفلوج تھی ‘ کورونا وبا کے منفی اثرات نے اسے مزید کمزور کردیا ہے‘ ایسے میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ اس مقصد سے کہ اس سے شعبہ جاتی خسارہ کم ہو گا سمجھ سے بالاتر ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین حکومتی سطح پر پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔

اس معاملے میں حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ جلد یا بدیر بات کرنا ہو گی‘ بہتر ہے کہ یہ کام جلد سے جلد کیا جائے ‘ مگر اس کے ساتھ اتنا ہی اہم ہے کہ ہم اپنے گھر کو بھی درست کریں۔ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ خسارے کی تقویم بن چکی ہے قومی معیشت کو بچانے کے لیے اس مسئلے کو حل کرنا ناگزیر ہے۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے جی ڈی پی گروتھ میں اضافے کی بات بھی بڑے کھلے انداز میں کی ہے۔ بقول ان کے گروتھ کو پانچ فیصد تک لے کر جانا ہو گا ۔فی الحقیقت پاکستان کی نوجوان آبادی کے لیے درکار ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے ہمیں مستحکم بنیادوں پر سالانہ سات سے نو فیصد گروتھ کی ضرورت ہے ‘ مگر یہ معاشی اور صنعتی خواب کیونکر کر شرمندہ تعبیر ہوسکتے ہیں؟ کہاں سے شروع کرنا ہو گا؟یہی ہمارے معاشی منصوبہ سازوں کے خلوص اور صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے۔ اس کے لیے یقینا مختصر مدت‘ درمیانی مدت اور طویل مدت کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پچھلے ایک طویل عرصے سے ہمارے ہاں اس قسم کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی‘ اگر کی گئی تو اس پر عمل نہیں کیا گیا مگر اب پاکستان کو اہداف مقرر کر کے آگے بڑھنا ہو گا۔ اور سب سے اہم یہ کہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement