اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

عملی کارکردگی یا جذباتی بیانیے ؟

وزیر اعظم عمران خان نے اگلے روز لاہور میں کم آمدنی والے طبقے کے لیے ایک رہائشی منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر اور غریب آدمی کے معیارِ زندگی اور مسائل پر طویل گفتگو کی اور اشرافیہ کو ملکی وسائل پر قابض قرار دیا۔ ان کی یہ باتیں اصولی طور پر درست ہیں مگر بحیثیتِ سربراہِ حکومت ان کا منصب صرف ان مسائل کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ ان کے ازالے کو یقینی بنانا بھی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی پوری طرح درست ہے کہ عام آدمی کو اوپر نہ لانے والا سماج ترقی نہیں کر سکتا‘ یہ ایک واضح حقیقت ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ہاں اس حوالے سے کوئی بڑا اور عملی قدم دکھائی دیتا ہے؟ حکومت غریب آدمی کو چھت مہیا کرنے کا عزم ظاہر کرتی ہے مگر ابھی اس منصوبے کے عملی صورت اختیار کرنے میں کئی مراحل درپیش ہیں۔ ہاؤسنگ کے شعبے میں بینکوں کے قرضوں کی سہولیات بڑھانے میں حکومتی دلچسپی سے بینکوں کا اس جانب رجحان بڑھا ہے مگر ایک غریب آدمی کو قرض حاصل کرنے کے قابل بننے کے لیے بھی آمدنی کے کچھ وسائل تو چاہئیں‘ اس لیے حکومتی ہاؤسنگ بلکہ کسی بھی سکیم کی کامیابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کی آمدنی کے وسائل میں اضافہ ہو۔ ہاؤسنگ مورگیج ہو یا بینکوں کی دیگر کنزیومر پراڈکٹس‘ لوگ تب ہی ان سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہوں گے جب ان کی جیب میں کچھ ہو گا؛ چنانچہ حکومت کو اپنی پوری توانائی روزگار کے وسائل بڑھانے اور معیشت کو نمو بخشنے پر صرف کرنی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں حکومت کی وسط مدتی کارکردگی کیا ہے؟ کیا عام پاکستانی کی آمدنی میں گزشتہ اڑھائی برسوں کے دوران کمی آئی ہے یا اضافہ ہوا ہے؟ اس کا جواب ظاہر و باہر ہے۔ آپ کسی بھی اشاریے کو بنیاد بنا کر دیکھ لیں‘ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیا ں ہو گی۔

وزیر اعظم عمران خان انسدادِ غربت کے سلسلے میں چین کی مثال دیتے ہیں مگر چین میں یہ سب کچھ ایک ہمہ جہت دور رس عملی جدوجہد کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ دیہی آبادی کی آمدنی بڑھانے کے لیے صنعتوں کو پھیلایا گیا اور غریب آبادی کو تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات مہیا کی گئیں۔ ہمارے لیے بھی یہی راستہ ہے‘ حکومت اس سلسلے میں خود ترسی کا شکار ہو کر اپنی بریت ثابت نہیں کر سکتی۔ حکومت کے پاس اختیارات ہیں اور یہ اسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترقی کے ان منصوبوں کو عملی صورت دے جن کے ایما پر اسے لوگوں نے مینڈیٹ دیا۔ ہماری اشرافیہ گرمی کی چٹھیاں کہاں گزارتی تھی یہ کہانیاں عام آدمی کے لیے چونکہ نئی نہیں اس لیے انہیں دہرانا بے معنی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت ایسے نئے رجحانات قائم کرے جو پرانے رجحانات کو بے اثر کر دیں۔ غریب اور امیر آدمی کی زندگی کے معیار میں کوئی قدر مشترک نہیں‘ یقینا یہ باعث افسوس ہے مگر اس کا حل یہی ہے کہ حکومت عام آدمی کو سپورٹ دینے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس طبقے کو صحت اور تعلیم کی بہترین سہولتیں اور آمدنی کے وسائل بڑھانے کے مواقع عطا کرے۔ اسی طرح سماجی حیثیت رکھنے والے اور متمول افراد اگر قانون کو چکمہ دیتے ہیں یا بد عنوانی کا چلن ہے تو اس کا حل بھی حکومت ہی پیش کر سکتی ہے۔ شہریوں نے تو اپنا ووٹ اور مینڈیٹ دے کر اس سے امید لگا لی مگر نصف کے قریب مدت اقتدار گزرنے کے باوجود ان معاملات میں کامیابی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ وزیر اعظم نچلے طبقے کے حالات پر دل گرفتگی کا اظہار تو کرتے ہیں مگر کیا ہمیں کم آمدنی والے طبقے کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولیات میں نمایاں بہتری کی کوئی صورت نظر آتی ہے؟ حکومت اپنے ہیلتھ کارڈ کا دعویٰ کر سکتی ہے مگر ہیلتھ کوریج سے عملی طور پر کتنے افراد استفادہ کر سکے ہیں؟ کیا کام کرنے والا طبقے‘ جو ملک و قوم کی عملی اور مالی خدمت کرتا ہے‘ کو صحت اور تعلیم کی سہولیات ملی ہیں؟ موجودہ حکومت کے پاس مثالی آئیڈیاز کی کمی نہیں مگر افسوس سے کہنا پڑے گا کہ عملی پیش رفت مثالی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک منصوبہ جو کئی روز تک موضوعِ گفتگو رہتا ہے کچھ دیر میں منظر سے اوجھل ہو جاتا ہے اور پھر توجہ کسی اور منصوبے پر جم جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت کا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیرِ غور اور نا مکمل منصوبوں کا ڈھیر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ماضی میں بھی یہی کچھ ہوتا چلا آیا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ سات دہائیوں میں بھی عملی‘ مستحکم اور پائیدار نظام وجود میں نہیں لایا جا سکا اور مسلسل ادھیڑ بُن کی کیفیت ہے۔

حکومت کو اگر انتظامی کمزوریوں کی شکایت ہے تو ان کو حل کرنے میں آخر کیا امر مانع ہے؟ ادارہ جاتی اصلاحات تو حکمران جماعت کا دیرینہ خواب تھا‘ مگر اب یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ اس بھاری پتھر کو چوم کر ہی چھوڑا جا رہا ہے۔ حکومت اگر آج بھی کوئی قدم بڑھائے تو اقتدار کے باقی ماندہ عرصے میں بہت کچھ کر سکتی ہے۔ جہاں تک مشکلات کی بات ہے تو کون سی راہ ایسی ہے جس میں چیلنجز نہ ہوں۔ دنیا آج چین کی مثال دیتی ہے تو کیا چین کو یہ سب کچھ پلیٹ میں رکھا ہوا مل گیا؟ ہماری حکومت کو بھی چیلنجز کا جواب حوصلے‘ منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے دینا چاہیے اور اپنی توجہات کا فوکس کمزور نہیں کرنا چاہیے، آخر کار حکومت کی کامیابی یا ناکامی کی کسوٹی اس کی عملی کارکردگی ہی ہو گی‘ انکشافات اور جذباتی اظہاریے نہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement