اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

دفاعِ وطن کے تقاضے

وزیردفاع خواجہ آصف نے دہشت گردوں کے تعاقب میں ملکی سرحدوں سے باہر کارروائیاں کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت حالتِ جنگ میں ہے‘ ٹارگٹڈ آپریشن ہو یا جنگ‘ دہشت گردوں کے خاتمے کا فیصلہ ہو چکا ہے‘جو ہمارے وجود کا دشمن ہوگا اسکے پیچھے ہمیں کسی بھی ملک میں جانا پڑا تو جائیں گے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے پاکستان کو امید تھی کہ اپنے پیشروئوں کے برعکس طالبان افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں گے ۔ طالبان نے دوحہ معاہدے میں اس کی یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ افغانستان علاقائی یا عالمی امن کو خطرہ بننے والی کسی کارروائی میں ملوث نہیں ہو گا‘ مگر کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ 2020ء میں پاکستان میں دہشتگردی کے 193 واقعات رپورٹ ہوئے مگر اگلے برس‘ جب اگست میں طالبان نے کابل کا اقتدار سنبھالا‘ ان واقعات میں 38 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سال کی دوسری ششماہی میں پہلی کی نسبت دہشتگردی میں20 فیصد اضافہ ہوا۔ 2022ء میں یہ اضافہ 36 فیصد اور 2023ء میں 45فیصد ہو گیا جبکہ 2024ء میں دہشتگردی کے واقعات میں تقریباً 50فیصد اضافہ ہوا اور 790 واقعات رپورٹ ہوئے۔ رواں سال کے ابتدائی ڈھائی ماہ کا اگر گزشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو اس سال دہشتگرد حملوں میں 35 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ دہشتگردی میں متواتر اضافے کی وجہ مغربی سرحد کے اُس پار دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ طالبان اپنے وعدوں اور یقین دہانیوں کی پاسداری نہیں کر سکے اور اسکے نتیجے میں پاکستان کیلئے سکیورٹی کے شدید خطرات پیدا ہوئے ہیں۔ حالیہ عرصے میں بنوں اور بلوچستان کے درۂ بولان میں مسافر ٹرین کو ہائی جیک کرنے کے واقعات میں ملوث دہشت گردبھی افغانستان سے آپریٹ ہو رہے تھے اور وہ مسلسل افغانستان میں موجود اپنی قیادت سے رابطے میں تھے۔ دہشتگردوں سے پکڑا جانیوالا اسلحہ بھی امریکی ساختہ ہے‘ جو امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کے وقت وہاں چھوڑ گئیں اور اس طرح نان سٹیٹ ایکٹرز کی جدید ترین اسلحے تک رسائی ہوئی۔ امریکی اسلحے کے دہشتگردوں کے زیر استعمال ہونے اور افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ افغان طالبان کیساتھ امن وامان کے حوالے سے پاکستان نے جو توقعات وابستہ کی تھیں‘ ان میں سے کوئی بھی پوری نہیں ہو سکی۔ افغان سرزمین پر پاکستان مخالف دہشتگرد تنظیموں کو نہ صرف منظم ہونے کا موقع فراہم کیا گیا بلکہ انہیں وہاں سے آپریٹ کرنے کی کھلی چھٹی بھی دی گئی۔ ان حالات میں پاکستان اپنی سالمیت اور اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں اس حوالے سے ہر حد تک جانے کے جس عزم کا اظہار کیا گیا ہے‘ پاکستانی قوم اس سے پوری طرح متفق ہے کہ قومی سلامتی پر ہرگز کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ پاکستان میں دہشتگردی کے خطرات میں افغان سرزمین کے استعمال ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں؛ چنانچہ افغان حکومت کو اس سلسلے میں ذمہ داری کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ عالمی ضوابط کے مطابق پاکستان اپنے شہریوں کے دفاع کیلئے سرحد پار دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کا حق محفوظ رکھتا ہے‘ تاہم بہتر یہی ہے کہ اس کی نوبت نہ آئے اور افغان حکومت اپنی سر زمین پر اپنی ذمہ داریاں خود پوری کرے۔ اس حوالے سے بارڈر سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے انٹیلی جنس شیئرنگ اور اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کی تجاویز پر بھی عمل ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک میں سکیورٹی خدشات کا ازالہ تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون کی راہیں بھی ہموار کر سکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00