اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آبی قلت اور گلیشیئرز کو لاحق خطرات

وزیر اعظم شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑھتے ہوئے اوسط درجہ حرارت کوگلیشیئرز کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔گلیشیئرز اور پانی کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 13ہزار سے زائد گلیشیئر ہیں جو زمین کے قطبی علاقوں کے بعد کہیں بھی پائے جانے والے گلیشیئرز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ تاہم ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے ان میں سے 10ہزار گلیشیئرتیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے تین ہزار سے زائد گلیشیائی جھیلیں بن چکی ہیں جن میں سے 33 انتہائی خطرناک بتائی جاتی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر 70 لاکھ افراد پر مشتمل آبادی کیلئے آفت بن سکتی ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے کہ ایک طرف گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے میٹھے پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے تو دوسری طرف ملک میں آبی قلت سنگین صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں آبی قلت پوری شدت کیساتھ موجود ہے جب ملک کے دونوں بڑے ڈیم ڈیڈ لیول تک پہنچ چکے ہیں جبکہ چشمہ بیراج میں بھی پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔آبی قلت کی وجہ سے ملک کا 80فیصد رقبہ جو قابلِ کاشت بنایا جاسکتا ہے ‘ بنجر پڑا ہے جبکہ 30فیصد آبادی کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ آبی قلت اب کوئی دور دراز علاقوں اور پسماندہ بستیوں ہی کا مسئلہ نہیں وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے متعدد بڑے شہروں میں آب رسانی کے وسائل آبادی کی ضرورت پوری نہیں کر پارہے۔ ہمارے ہاں آبی مسائل کے شدت اختیار کرنے کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے ہر ایک نے اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی بات کی جائے تو شہروں کے وسائل اتنی بڑی آبادی کیلئے نہیں بنائے گئے تھے۔ ہمارے ہاں شہروں کی آبادی میں تابڑ توڑ اضافہ ہوا ہے یہاں تک کہ چند برس میں بعض شہروں کا پھیلاؤ دوگنا ہو چکا ہے۔ مگر آب رسانی اور نکاسی کے وسائل وہی ہیں۔ اس طرح طلب اور رسد میں مشکلات کا پیدا ہونا غیر فطری نہیں۔آبی قلت میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جو اس خطے کے روایتی موسمیاتی دورانیے کی تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں۔ بارشیں اپنے معمول سے ہٹ چکی ہیں‘ یا تو بالکل نہیں ہوتیں اور اگر ہو جائیں تو کلاؤڈ برسٹ کی صورت پیدا ہونا اب عام سی با ت ہوچکی ہے۔اس مسئلے کا حل بارشی پانی کی بہتر مینجمنٹ ہے۔ ہمارا شمار بہت زیاہ پانی ضائع کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔آبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کا سالانہ تقریباً 30 سے 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہوجاتا ہے ۔یہ پانی موجودہ بڑے آبی ذخائر تربیلا اور منگلا ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش کے برابر ہے ۔یہ پانی ذخیرہ نہ ہوسکنے کی بڑی وجہ آبی ذخائر کا نہ ہونا ہے۔ آبی سکیورٹی کا بنیادی تقاضا ہے کہ نئے ڈیموں کے منصوبوں پر کام کیا جائے۔ ڈیم کی تعمیر پر ہونے والی سرمایہ کاری ضائع نہیں جائے گی۔ دوسرا اہم اقدام لوگوں میں آبی کفایت شعاری کا شعور پیدا کرنا ہے۔ ہمارے ہاں گھریلو سطح پر بہت پانی ضائع ہوتا ہے۔ مناسب اقدامات سے اس مد میں خاصی بچت ہو سکتی ہے ۔ اگر حکومتی اور عوامی سطح پر آبی قلت اور گلیشیئرز کے تحفظ جیسے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ مرکوز نہ کی گئی تو آنے والوں چند سالوں میں یہ مسائل سنگین صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ بینجمن فرینکلن نے ایک بڑی دل لگتی بات کہی ہے کہ ہمیں پانی کی قدر کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب ہمارے کنوئیں سوکھ جاتے ہیں۔ عقلمندی کا تقاضا ہے کہ دور اندیشی سے کام لیا جائے اور کنوؤں کے سوکھنے سے پہلے پانی کی قدر واہمیت کو پہچانا جائے۔ اس کیلئے طویل المدت اور پائیدار آبی پالیسی کے علاوہ طرزِ معاشرت بھی تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئیگی۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے پہلی گلیشیئر کنزرویشن سٹریٹجی کا اجرا کر دیا گیا ہے اور پانی بچانے کیلئے بھی وقتاً فوقتاً کچھ فیصلے سامنے آتے رہتے ہیں‘ لیکن اصل کام ان پر بلاتاخیر عملدرآمد یقینی بنانا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00