دہشت گردی‘ ایک سنگین مسئلہ
کوئٹہ میں پولیس موبائل‘ چمن میں لیویز کی گاڑی کے قریب دھماکے‘ ضلع گوادر کے علاقے کلمت میں فائرنگ کر کے چھ افراد کو قتل کرنے اور تربت میں رہائشی کوارٹرز پر بم حملوں کے واقعات بلوچستان میں دہشت گردوں کی تشویشناک رخ اختیار کرتی سرگرمیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں اس طرح کی قابلِ مذمت کارروائیاں دہشت گردوں کے مکروہ عزائم کی عکاسی کرتی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کا یہ بیان بھی قابلِ توجہ ہے کہ دشمن قوتیں بلوچستان کے امن کو نشانہ بنا رہی ہیں‘ بے گناہ افراد کو ناحق قتل کرنا انسانیت سوز جرم ہے‘ ایسی بزدلانہ کارروائیاں قوم کے دہشت گردی کے خلاف پختہ عزم کو کمزور نہیں کر سکتیں۔ امنِ عامہ کی بگڑتی صورتحال بالخصوص بلوچستان کے حالات متقاضی ہیں کہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق دہشت گردی کے خلاف تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ہر آپشن استعمال کیا جائے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں کون ملوث ہے‘ یہ سکیورٹی اداروں سمیت پوری قوم کیلئے اب کوئی راز نہیں ہے۔ تازہ واقعات کے ڈانڈے بھی وہیں جا کر ملتے ہیں‘ جہاں سے حالیہ دنوں دہشت گردی کے اکثر واقعات کا سراغ ملتا آیا ہے۔ دہشت گردی کے اس سنگین خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے متفقہ سیاسی عزم اور انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی پر قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے جبکہ دہشت گردوں کے نیٹ ورکس‘ لاجسٹک سپورٹ اور انکے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنایا جانا چاہیے۔ اگرچہ افواجِ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف پوری قوت سے کمربستہ ہیں اور انکے خلاف کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جا رہا مگر انتظامی‘ سیاسی اور سماجی سطح پر جن اقدامات کی ضرورت ہے‘ وہ کم ہی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ تواتر سے ہونے والی یہ تخریبی کارروائیاں بالخصوص صوبائی حکومت اور پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ سکیورٹی کے ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے صوبائی سطح پر خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پولیس اور انسدادِ دہشت گردی کے محکموں کی استعداد بڑھا کر ان چیلنجز کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے گزشتہ دنوں ہر ضلعی افسر کو اپنے علاقے میں ریاستی رِٹ قائم کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے نئی سخت ہدایات جاری کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ نہ صرف ریاست کے ہر ادارے بلکہ ہر فرد کی جنگ ہے اور سب کو مل کر ہی یہ جنگ لڑنی ہے۔ پاکستان کو اپنی قومی تاریخ میں ایسے حالات سے متعدد بار واسطہ پڑ چکا۔ اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قوم اور ریاستی اداروں نے جس طرح مسلسل قربانیاں دے کر یہ جنگ جیتی‘ حالیہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے پاس دہشت گردی کی نئی حکمت عملی سے نمٹنے کا تجربہ دیگر ممالک سے زیادہ ہے اور عزمِ استحکام اور نیشنل ایکشن پلان انہی تجربات کا نچوڑ ہیں جو ایک واضح اور قابلِ عمل لائحہ عمل فراہم کرتے ہیں۔ بلوچستان کا معاملہ چونکہ حساسیت کا حامل ہے‘ اس لیے یہاں طاقت کیساتھ ساتھ سیاسی ذرائع کو بھی بروئے کار لانا چاہیے۔ اگرچہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور مسلح کارروائیوں کرنے والوں کو کوئی معافی نہیں دی جا سکتی مگر بھٹکے ہوئوں کو اگر اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو دنیا میں ریاست سے زیادہ کشادہ دامن کسی کا نہیں ہو سکتا۔ انتظامی سطح پر بڑھتی دہشت گردی کے اسباب بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے‘ جن میں بیروزگاری‘ پسماندگی اور قومی دھارے سے غیر وابستگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پالیسی سازوں کو اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کو شریکِ مشاورت کرنا چاہیے تاکہ اس مسئلے کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔