اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

غیرمعمولی زرعی ٹیکس

انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں زرعی شعبے پر عائد ٹیکس کی شرح دیگر علاقائی ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔ چاروں صوبوں میں چھ لاکھ سے بارہ لاکھ روپے تک کی زرعی آمدن پر 15 فیصد انکم ٹیکس لاگو ہے جبکہ اس سے زیادہ آمدن کی صورت میں ٹیکس کی شرح بھی مزید بڑھ جاتی ہے۔اقتصادی سروے 2024ء کے مطابق پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ 24 فیصد ہے جبکہ بھارت میں زرعی جی ڈی پی کا حصہ 18 فیصد اور بنگلہ دیش میں 12 فیصد ہے‘ مگر اسکے باوجود وہاں کسانوں کو زیادہ سہولتیں حاصل ہیں اور ٹیکس کی شرح بھی کافی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی کاشتکارعلاقائی ممالک کے کاشتکاروں کے مقابلے میں زیادہ مالی دباؤ کا شکار ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت زرعی ٹیکسوں میں اضافے کا سب سے زیادہ بوجھ غریب اور متوسط درجے کے کسانوں پر پڑا ہے۔ کھاد‘ بیج‘ زرعی ادویات ‘ پانی کے بڑھتے اخراجات اور زرعی اجناس کی قیمتوں کی غیر یقینی صورتحال کسان کی مشکلات میں اضافہ کررہی ہے جس کے نتیجہ میں زرعی اجناس کی پیداوار میں کمی اور دیہی غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت زرعی ٹیکس پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے۔ ٹیکس میں نرمی کے علاوہ اگر کسانوں کو زرعی اجناس کی قیمتوں میں استحکام‘ کھاد اور بیج پر سبسڈی‘ سستے قرضوں اور زرعی انشورنس جیسی سہولتیں فراہم کی جائیں تو نہ صرف کسان خوشحال ہوگا بلکہ فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ بھی سر نہیں اٹھائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00