غیرمعمولی زرعی ٹیکس
انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں زرعی شعبے پر عائد ٹیکس کی شرح دیگر علاقائی ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔ چاروں صوبوں میں چھ لاکھ سے بارہ لاکھ روپے تک کی زرعی آمدن پر 15 فیصد انکم ٹیکس لاگو ہے جبکہ اس سے زیادہ آمدن کی صورت میں ٹیکس کی شرح بھی مزید بڑھ جاتی ہے۔اقتصادی سروے 2024ء کے مطابق پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ 24 فیصد ہے جبکہ بھارت میں زرعی جی ڈی پی کا حصہ 18 فیصد اور بنگلہ دیش میں 12 فیصد ہے‘ مگر اسکے باوجود وہاں کسانوں کو زیادہ سہولتیں حاصل ہیں اور ٹیکس کی شرح بھی کافی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی کاشتکارعلاقائی ممالک کے کاشتکاروں کے مقابلے میں زیادہ مالی دباؤ کا شکار ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت زرعی ٹیکسوں میں اضافے کا سب سے زیادہ بوجھ غریب اور متوسط درجے کے کسانوں پر پڑا ہے۔ کھاد‘ بیج‘ زرعی ادویات ‘ پانی کے بڑھتے اخراجات اور زرعی اجناس کی قیمتوں کی غیر یقینی صورتحال کسان کی مشکلات میں اضافہ کررہی ہے جس کے نتیجہ میں زرعی اجناس کی پیداوار میں کمی اور دیہی غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت زرعی ٹیکس پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے۔ ٹیکس میں نرمی کے علاوہ اگر کسانوں کو زرعی اجناس کی قیمتوں میں استحکام‘ کھاد اور بیج پر سبسڈی‘ سستے قرضوں اور زرعی انشورنس جیسی سہولتیں فراہم کی جائیں تو نہ صرف کسان خوشحال ہوگا بلکہ فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ بھی سر نہیں اٹھائے گا۔