چینی بحران اور مس مینجمنٹ
حکومت کی جانب سے چینی کی ایکس مل قیمت بڑھانے کے باوجود مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں کمی نہیں آ سکی۔ اس وقت بھی لاہور‘ کراچی اور کوئٹہ سمیت متعدد شہروں میں چینی سرکاری نرخ‘ 165 روپے کے بجائے 180 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ چند روز قبل نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے شوگر ملز سے مذاکرات کے بعد چینی کی ایکس مل قیمت میں قریب 19 روپے کا اضافہ کرتے ہوئے 140 کے بجائے 159 روپے ریٹ مقرر کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اب چینی کی قیمت نہیں بڑھے گی‘ مگر اس اعلان کا بھی وہی حال ہوا جو قبل ازیں چینی کی برآمد کی اجازت دیتے ہوئے کیا گیا تھا کہ چینی کی برآمد سے اس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہو گا۔ دسمبر میں جب پانچ لاکھ ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی تو اس کیساتھ ہی ملکی سطح پر نہ صرف چینی کی قلت شروع ہو گئی بلکہ چینی کی قیمت کو بھی پر لگ گئے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دسمبر 24ء تا فروری 25ء کے دوران چار لاکھ چار ہزار دو سو چھیالیس میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی اور اس مدت کے دوران ملک میں چینی کی اوسط قیمت 23 روپے چھیالیس پیسے فی کلو بڑھ گئی۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق نومبر 2024ء میں چینی کی اوسط قیمت 131روپے61 پیسے فی کلو تھی جو دسمبر میں تین روپے 23 پیسے‘ جنوری میں آٹھ روپے 35 پیسے اور فروری میں 11 روپے 88 پیسے بڑھی۔ دوسری جانب اس دوران بیرونِ ملک سے چینی کی درآمد کا سلسلہ بھی جاری رہا اور صرف بھارت ہی سے پچاس ہزار ٹن سے زائد چینی درآمد کی گئی۔ یہ امر تعجب کا باعث ہے کہ کیسے ہر بار ایک ہی طریقے سے حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نہ صرف شوگر مافیا ملکی ضرورت کی چینی بیرونِ ملک برآمد کر دیتا ہے بلکہ بعد ازاں مہنگے نرخوں پر باہر سے چینی منگوانے پر مجبور بھی کر دیتا ہے۔ اس دوران قیمت میں ہونے والا اضافہ عوام کی جیب پر تو بوجھ ڈالتا ہی‘ حکومت کو بھی درآمدات پر قیمتی زرِمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ چار سال قبل چینی بحران سے تنگ آ کر حکومت نے ’’ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم‘‘ نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ شوگر ملوں کے اعداد وشمار پر تکیہ کرنے کے بجائے حکومتی سطح پر معلومات اکٹھی کی جائیں اور پیداوار‘ طلب اور رسد کے حوالے سے تمام ڈیٹا حکومتی نظر میں ہو مگر گزشتہ سال مئی میں ایک انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں ناقص منصوبہ بندی اور نفاذ کے حوالے سے غفلت کے باعث ملکی خزانے کو نقصان پہنچا۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق اس اہم قومی منصوبے کے نفاذ میں جلد بازی کے سبب اہم شقوں کو نظر انداز کیا گیا‘ اور تھرڈ پارٹی آڈٹ اور تنازعات کے حل کیلئے متبادل نظام کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا گیا۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ایسی پالیسیاں اور پروجیکٹس‘ جن کا مقصد نظام کو بہتر بنانا‘ شفافیت کو فروغ دینا اور ریونیو کو بڑھانا ہوتا ہے‘ وہ بیڈ گورننس اور عملدرآمد نہ ہونے کے باعث نقصان کا سبب بن جاتے ہیں۔ صرف چینی پر ہی کیا موقوف‘ ماضی قریب میں گندم اور کھاد وغیرہ کی برآمدات سے بھی ملکی سطح پر ان کا قال پڑنے سے عوام بحران کا سامنا کر چکے۔ ایسا ہر بحران مس مینجمنٹ اور انتظامی بحران کو اجاگر کرتا ہے۔ تاہم سوال یہ بھی ہے کہ حکومت کس کس شعبے میں اور کہاں کہاں نظر رکھے گی؟ مہنگائی اور مصنوعی بحران کے جو بنیادی عوامل ہیں‘ جب تک ان کی جانب توجہ نہیں دی جاتی یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اس حوالے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پیداوار‘ طلب اور رسد کے معاملات پر گہری نظر رکھی جائے۔ رسد بڑھانے کے لیے نہ صرف پیداوار بڑھانے کے ضرورت ہے بلکہ ایکسپورٹ پالیسی پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ زرعی معیشت والے ملک میں آئے روز غذائی اشیا کی قلت اور قیمتوں کا بے قابو ہو جانا محض اتفاق نہیں۔ یہ مافیا کی ملی بھگت اور انتظامی نقائص کا مظہر ہے‘ جن پر فوری توجہ ناگزیر ہے۔