آئی ایم ایف سے پیش رفت
پاکستان اور آئی ایم ایف میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلیٹی (ای ایف ایف) کے پہلے جائزے اور نئے کلائمیٹ ریزیلینس لون پروگرام (آر ایس ایف) کا سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے۔آئی ایم ایف کے اعلامیے کے مطابق 37 ماہ کے ایکسٹینڈڈ ارینجمنٹ کے پہلے جائزے اور آر ایس ایف کے تحت 28 ماہ کے نئے پروگرام پر سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا‘ جس کے تحت‘ بورڈ کی منظوری کے بعد‘ پاکستان کو آر ایس ایف کے تحت ایک ارب 30 کروڑ ڈالر جبکہ ای ایف ایف کے تحت تقریباً ایک ارب ڈالر قرض ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف حکام کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران پاکستان نے مشکل عالمی حالات کے باوجود میکرو اکنامک استحکام بحال کرنے اور اعتماد کی بحالی میں نمایاں پیشرفت کی ہے۔ اگرچہ اقتصادی ترقی معتدل رہی لیکن مہنگائی 2015ء کے بعد کم ترین سطح پر پہنچ گئی‘ مالیاتی حالات بہتر ہوئے اور بیرونی توازن مضبوط ہوا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ طے پانے کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دن رات کی محنت اور ٹیم ورک کے نتیجے میں یہ کامیابی حاصل ہوئی اور یہ معاہدہ حکومت کی سنجیدگی کا عکاس ہے۔ 24 فروری سے 14 مارچ تک آئی ایم ایف ٹیم کے دورۂ پاکستان کے بعد محض دو ہفتوں کے اندر یہ معاہدہ طے پانے سے ایک مثبت تاثر اجاگر ہوتا ہے اورآئی ایم ایف بورڈ کی منظوری کے لیے کسی پیشگی شرط کی تکمیل یا مالی معاونت کی یقین دہانی کی ضرورت نہیں۔ اس سے قبل معاہدوں میں آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری کا انحصار پاکستان کے دوست ممالک سے فنانسنگ کی یقین دہانیوں کے حصول پر رہا جس کے سبب سٹاف لیول معاہدوں میں تاخیر ہوتی رہی۔ لہٰذا اس معاہدے سے پروگرام کی تاخیر‘ ڈیڈ لاک اور تعطل کے خدشات دور ہو گئے ہیں‘ مگر ہمیں یہ مان کر چلنا چاہیے کہ آئی ایم ایف پروگرام حکومت کو اقتصادی اصلاحات کے لیے محض ایک خاکہ فراہم کرتا اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ قرض مختصر مدتی سہولت تو ہو سکتی ہے مگر اس سے معاشی عارضوں یا لاحق خطرات کا مستقل ازالہ نہیں ہو سکتا۔ قومی معیشت کا پائیدار استحکام پیداواری صلاحیت میں اضافے سے ممکن ہے مگر سرِدست ہماری پیداواری کارکردگی گنجائش سے بہت کم ہے۔ رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو 1.73 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اگرچہ یہ پہلی سہ ماہی کی شرح 0.92 سے زیادہ ہے مگر مالی سال کے حکومتی ہدف 3.6 اور آئی ایم ایف کے نظر ثانی شدہ ہدف‘ تین فیصد سے بہت کم ہے۔ میکرو اکنامک استحکام اور معاشی بہتری کے باوجود چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ اس وقت ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر آئندہ چند ماہ کی ادائیگیوں کے لیے کافی ہیں مگر ادھار کے پیسوں سے خزانے کو بھرا ہوا دکھانے کے بجائے ہمیں اپنے ذخائر کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام دیرپا ٹھوس منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں۔حکومتی سطح پر مالی نظم وضبط کا فروغ‘ سرکاری اخراجات میں کمی اور سرکاری کارپوریشنز کے خسارے کو کم کر کے ہی مالی ذخائر کو بڑھایا جا سکتا ہے جبکہ سب سے اہم کام پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے اور یہ کام کاروبار کے لیے سازگار ماحول اور صنعتی شعبے کو مناسب سہولتیں دیے بغیر ممکن نہیں۔ عالمی مالیاتی حکام سے سٹاف لیول معاہدہ ایک مثبت اقدام ضرور سہی کہ اس سے دیگر مالیاتی اداروں اور سرمایہ کاروں کا ملکی معیشت پر اعتماد مضبوط ہو گا مگر حکومت کی کامیابی اس میں ہے کہ اصلاحات کے عمل کو مالیاتی ادارے کی شرائط کے طور پر نہیں بلکہ داخلی سدھار کے ناگزیر تقاضے کے طور پر جاری رکھے۔