اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قومی یکجہتی کا بیانیہ

وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی عزت و وقار داؤ پر لگا ہوا ہے‘ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔بادی النظر میں وزیر اعظم کا اشارہ اس سیاسی اور فکری انتشار کی جانب تھا جس کے مظاہر سماجی عدم برداشت اوربڑھتی ہوئی شدت پسندی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بدقسمتی سے حالیہ کچھ عرصہ کے دوران اس رجحان میں اضافہ دکھائی دیتا ہے‘ خاص طور پر سوشل میڈیا کی صورت میں ابلاغ کے جدید وسائل تک عوامی رسائی کے نتیجے میں فکری عدم اعتدال کے مظاہر بہت عام ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے حقیقی خطرہ ہیں۔چنانچہ ضروری ہے کہ اس حوالے سے بروقت ضروری اقدامات ہوں۔ان حالات میں پاکستان کو قومی جذبے اور مشترک بیانیے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستانی سماج فی زمانہ جس فکری انتشار کی زد پہ ہے ماضی قریب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس انتشار نے انڈے بچے دینے شروع کر دیے ہیں اور یہ سلسلہ طول پکڑتا دکھائی دیتا ہے۔ نتیجے کے طور پر ریاست کی اکائیوں میں صوبائی‘ لسانی اور سیاسی بنیادوں پر افتراق زور پکڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال اُن بد خواہوں کے عزائم کے موافق ہے جو پاکستان کو مستحکم‘ خوشحال‘ ترقی پذیر اور اقوام عالم کی صفوں میں ایک باتوقیر ریاست کے طور پر نہیں دیکھ سکتے۔ یہ صورتحال قومی ہم آہنگی کے فقدان کا بدیہی نتیجہ ہے اور اس کا سدباب مخالف بیانیے کی پرداخت سے نہیں قومی ہم آہنگی کے فروغ سے ممکن ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی فاصلے کم ہوں‘ قومی مکالمہ ہو اور سیاسی قوتیں پاکستان کی تعمیر و ترقی میں شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔اس پیشرفت کے اثرات سماجی سطح پر غیر معمولی بہتری کی صورت میں سامنے آئیں گے اور ہمارا معاشرہ اس وقت جس تقسیم اور بے یقینی سے دوچار ہے اس کا ازالہ ہو گا۔ پاکستان کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا کہ دشمن ہمیں جس دلدل میں دھنسا ہوا دیکھنا چاہتا ہے ہم اپنے قومی مفاد کا ادراک کرتے ہوئے خود کو اس میں سے نکالیں۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے‘ اس میں دو رائے نہیں ہے‘ مسئلہ یہ ہے کہ ان وسائل سے استفادہ کرنے کیلئے جو توازن‘ اعتدال اور استحکام درکار ہے ہمارے ہاں اس کا فقدان ہے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جو وسائل سے مالا مال ہیں مگر ان کے داخلی عدم استحکام نے انہیں سنبھلنے نہیں دیا اور وہ ناکام ریاست قرار پائے۔ عقلمندی کا تقاضا ہے کہ ان مثالوں سے سبق حاصل کیا جائے اور سیاسی تقسیم اور انتشار کو بڑھاوا دینے سے اجتناب کریں۔ اس کیلئے ہمیں زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اَنا کا خول اتارنا ہو گا اور شخصی‘ جماعتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہو گی۔ یہ ادراک کرناہو گا کہ قومی انتشار کی آگ لگا کر پاکستان کے دشمنوں کی مدد کی جاتی ہے۔ وہ اس آگ پر اپنے پروپیگنڈا کا تیل چھڑکتے ہیں۔ آج ملک کے دو مغربی صوبوں میں جو حالات ہیں یہ ہر لحاظ سے قومی اتفاق رائے کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وقت ضائع ہو گا تو دہشت گردی میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ حکومت کی جانب سے قومی بیانیے کو فروغ دینے کیلئے فلموں اور ڈراموں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یقینا یہ میڈیم بھی کارآمد ہیں مگر علاج کا اصول ہے کہ دوا کی تجویز بقدر شدتِ مرض ہونی چاہیے۔ ہمارے قومی عارضے کی دائمی صورت زود اثر دوا کا تقاضا کرتی ہے۔ ہمیں کم سے کم وقت میں ایسے قومی بیانیے کے فروغ کی ضرورت ہے جو زیادہ مؤثر اور حقیقی نوعیت کا ہو۔بہتر ہو گا کہ قومی بیانیہ قومی مافی الضمیر سے ابھرے۔ اس کیلئے قومی قیادت کو بروئے کار آنا چاہیے۔ ان میں سیاستدان سب سے مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00