اردو کے معروف مصنف، ڈرامہ نگار اور دانشور اشفاق احمد کی نویں برسی آج منائی جائیگی
اشفاق احمد نے بیس سے زائد کتب تصانیف کیں،کئی یادگار ڈرامے تحریر کئے ،ریڈیو پروگرام تلقین شاہ تین نسلوں نے سنا 1925 کو بھارت میں پیدا ہوئے ، جی سی سے اردو ادب میں ایم اے کیا، پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا
لاہور(شاہد بلال سے )اردو کے معروف مصنف، ڈرامہ نگار اور دانشور اشفاق احمد کی نویں برسی آج منائی جائے گی۔اشفاق احمد نے بیس سے زائد کتب تصانیف کیں جبکہ ریڈیو اور ٹی وی کے لئے کئی یاد گار ڈرامے بھی تحریر کئے ۔معروف شاعر ایوب خاور جنہوں نے اشفاق احمد کی قربت میں کئی سال گزارے کا کہنا ہے کہ اشفاق احمد کی تحریر نے انہیں دانشور اور ان کی دانش نے انہیں ایک رائٹر بنایا، ان کا کہنا تھا کہ اشفاق احمد کا افسانہ ’’گڈریا‘‘پاکستان کی افسانہ نگاری میں ایک ’’کلاسک‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے ۔وہ ریڈیو کے انتہائی منفرد براڈ کاسٹر تھے اور ان کا پروگرام’’تلقین شاہ‘‘تین نسلوں نے سنا، انہوں نے ایک مخصوص لب و لہجے میں تلقین شاہ کا کردار ادا کیا جو ریڈیو کی تاریخ کے یادگار کرداروں میں سے ایک ہے ۔ ان کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریز ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ اپنی نوعیت کی ایک واحد ڈرامہ سیریز تھی جو شائد اب کبھی نہ بن پائے ۔’’ایک محبت سو افسانے ‘‘ کے بعدڈرامہ سیریز ’’طوطا کہانی‘‘جو ساحرہ کاظمی نے پروڈیوس کی تھی اور اسکے بعد ’’منچلے کا سودا ‘‘جیسی ڈرامہ سیریز آج بھی شائقین کے ذہنوں میں تازہ ہیں ۔ان کی دیگر مقبول ترین ڈرامہ سیریز میں ’’بند گلی‘‘اور ’’حیرت کدہ‘‘ شامل ہیں ۔ایوب خاور کا کہنا تھا کہ اشفاق احمد کی تحریرکردہ ڈرامہ سیریز ’’اور ڈرامے ‘‘جسے یاور حیات نے ڈائریکٹ کیا تھا ، ڈرامے کی سب سے منفرد اور نئی طرز تھی جس کے بعد ڈرامے کے مزاج میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ۔ معاشرے میں تیزی سے تبدیلی آنے کے باعث ڈرامے کا رجحان بھی تبدیل ہوگیا ہے اور اب یہ اپنے حقیقی روپ سے نکل چکا ہے تاہم جدید ڈرامہ رائٹر بھی اشفاق احمد کے ڈرامے پڑھے بنا مکمل نہیں ہوتا ۔انہوں نے بتایا کہ پروگرام ’’زاویہ‘‘اشفاق احمد کی زندگی کا نچوڑ تھا اور ایک اچھوتا تجربہ تھا جس میں وہ نوجوانوں کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کیا کرتے تھے ۔اس پروگرام نے نوجوان نسل کو بے حد متاثر کیا کیونکہ وہ نوجوانوں کے ساتھ فلسفیانہ انداز میں گفتگو کرنے کے بجائے عام فہم زبان اور الفاظ استعمال کرتے تھے ۔ان کی درویشانہ طبیعت میں ایک ایسا سحر تھا کہ آج کی نوجوان نسل جو اردو ادب سے بہت دور ہے ،بھی اشفاق احمد سے واقف ہے ۔ان کی باتیں ،ان کے اقوال اور ان کی کتابوں کے حوالے آج بھی سوشل میڈیا میں گردش کرتے ہیں ۔اردو ادب کے علاوہ پنجابی ادب میں بھی ان کی بہت سی خدمات ہیں ۔ان کا ڈرامہ ’’ٹالی دے تھلے ‘‘ آج بھی مقبول ہے ۔اشفاق احمد کا ایک تاریخی جملہ ہے کہ’’مجھے گنا چوس کر پنجابی لکھنے میں بہت مزہ آتا ہے ‘‘۔ اشفاق احمد 22اگست 1925کو بھارت کے شہر غازی آباد کے مضافاتی گاؤں گڑھ مکتیشور میں پیدا ہوئے جبکہ تقسیم ہند سے کچھ عرصہ قبل ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے اردو ادب میں ایم اے کیا ۔اشفاق احمد اور ان کی اہلیہ بانو قدسیہ کی اردو ادب کے لئے خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔اشفاق احمد کو پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔