فنکارہ کے لئے مشکل ترین کام خاندان کو وقت دینا ہے: اداکارہ عائزہ خان

تفریح
لاہور: (دنیا میگزین) پاکستانی ٹیلی وژن ڈرامون کی معروف اداکارہ عائزہ خان نے کہا ہے کہ ایک فنکارہ کے لئے مشکل ترین کام خاندان کو وقت دینا ہوتا ہے۔
ڈرامہ انڈسٹری میں اسوقت باصلاحیت فنکار موجود ہیں ،اکثر بڑی فنکارائوں کی اولین ترجیح فلم ہے۔ اس صورتحال میں ٹی وی اداکارہ و ماڈل عائزہ خان سب سے جدا ہیں۔
وہ ڈرامہ سیریل ’’تم میرے پاس ہو ‘‘کی مقبولیت کے باوجود فلموں میں کام کرنے کے لئے رضا مند نہیں ہیں۔ ان کی شہرت اور مقبولیت کا اندازہ تو اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں جب وہ ساحلی شاپنگ مال میں فیشن ایمبیسڈر کے طور پر آئیں تو ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لڑکیاں کئی گھنٹوں منتظر رہیں۔
سخت سیکورٹی کے حصار کے باوجود خواتین نے ان کو گھیر لیا۔ وہ کئی گھنٹوں تک ان کے ساتھ سیلفیاں اور تصاویر بنواتی رہیں، انہیں خواتین کے حصار سے نکالا نہ جا سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈرامہ سیریل ’’ میرے پاس تم ہو ‘‘ کی مہوش آج لوگوں کی پسندیدہ فنکارہ بن گئی ہے۔ اس کا کریڈٹ میرے فینز کو جاتا ہے جو میرے ڈرامے شوق سے دیکھتے ہیں۔
عائزہ خان کا مزید کہنا تھا کہ فی الحال فلموں میں کام کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ٹی وی ڈراموں کی شہرت ہی کافی ہے۔ میرے ساتھی فنکار ٹی وی سے فلموں میں کام کر رہے ہیں۔ ہمایوں سعید کے ساتھ ان کی ذاتی فلم میں کام کرنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی کمٹمنٹ نہیں ہوئی، اگر وہ کوئی فلم بنا رہے ہیں تو وہ ان کی خواہش ہوگی، ویسے فلموں کی آفرز مل رہی ہیں لیکن میں فلموں سے فی الحال دور رہنا چاہتی ہوں۔ ٹی وی ڈراموں کے کئی معاہدے کر چکی ہوں جن کی شوٹنگ کی مصروفیات فلموں کی اجاز ت نہیں دے سکے گی۔
15 جنوری 91ء کو کراچی میں جنم لینے والی کنزا خان المروف عائزہ خان نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز دوران تعلیم ہی 18 برس کی عمر میں 2009ء میں ’’ تم جو ملے ‘‘ میں ساتھی اد اکارہ کے طور پر کیا۔
متعدد ڈرامہ سیریلز ’’سنگدل‘‘،’’ پل صراط‘‘اور’’ لڑکیاں محلے کی‘‘ میں معاون فنکاروں کے طور پر کام کیا۔ 2011ء میں پہلی بار لیڈنگ کردار ڈرامہ سیریل ’’ٹوٹے ہوئے پر‘‘ میں ملا۔
سخت محنت اور جدوجہد کے بعد انہوں نے ڈرامہ سیریلز عکس، ادھوری عورت، میرے مہربان، تم کون پیا کئے لیکن ملک گیر شہرت ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمان قمر کے لکھے ہوئے اور ہمایوں سعید کی پروڈکشن ڈرامہ سیریل ’’پیارے افضل‘‘ میں فرح ابراہیم کا منفرد کردار ادا کرنے پر 2013ء میں ملی۔
عمدہ کردار نگاری پر بہترین اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا۔ اس سیریل کے بعد 2014ء میں اداکار دانش تیمور سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ اس وقت وہ پانچ سالہ بیٹی اور تین سالہ بیٹے کی ماں ہیں۔
گریجویٹ فنکارہ نے شادی کے بعد ڈرامہ سیریل ’’تم کون پیا‘‘ سے عمران عباس کے ساتھ دوبارہ ڈرامہ انڈسٹری میں انٹری دی۔ کیریئر کے دوان انہوں نے نادانیاں ، ماہی نی، کالا جادو، شادی مبارک، می رقصم، زرد موسم، میرا سائیں 2 ، ماہی آئے گا، کہی ان کہی، میری زندگی ہے تو، ایکسٹرا : دی مینگو پیپل، ساری بھول ہماری تھی، غلطی سے مسٹک ہو گئی، دو قدم دور تھے، جب وی ویڈ، بگڑا میرا نصیب، شہرناز، محبت تم سے نفرت ہے، تو دل کا کیا ہوا، کوئی چاند رات، یاریاں ، تھوڑا سا حق اور دیگر شامل ہیں۔
ٹیلی فلموں میں کتنی گرہیں باقی ہیں ،سیریز کی ٹیلی موویز میں دیکھ کبریا رویا، فقط تمہارا سلیم، گھر، باغی کہاں ہے، جنت، میں ککو اور وہ، تیری میری لو سٹوری شامل ہیں۔
ان ڈراموں اور فلموں میں کارکردگی کی بنا پر وہ میرے مہربان کے لئے بیک وقت بہترین مقبول فنکارہ اور بہترین اداکارہ سٹائل ایوارڈپ انے کے بعد 2020ء کے لئے وہ پاکستان انٹرنیشنل میڈیا ایوارڈ کے لئے میرے پاس تم ہو دیگر اداروں سے ایوارڈز کے لئے نامزد ہو چکی ہیں۔
ناقدین بھی عائزہ خان کو سال کی بہترین اداکارہ قرار دے چکے ہیں۔ ٹی وی ناظرین کی موجودہ دور کی سپر سٹار عائزہ خان سے کیریئر کے حوالے سے ہونے والی گفتگو پیش خدمت ہے۔
دنیا: تعلیم کے دوران شوبز انڈسٹری کو کیسے وقت دیا؟
عائزہ خان: نئی صدی کے آغاز سے ہی ملکی سطح پر شوبز انڈسٹری میں تبدیلوں کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ ٹی وی ڈرامے دیکھ کر کئی لڑکیاں ہیروئن بننے کے خواب دیکھنے لگتی ہیں۔ نوجوانوں میں مُستقبل کے حوالے سے کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ زیادہ تر طے نہیں کر پاتے کہ زندگی میں آگے کیا کرنا ہے۔ خود سے لڑتے ہیں جس سے صلاحیتیں اور وقت برباد ہوتا ہے۔ زیادہ تر نوجوان گریجویشن یا ماسٹرز کرنے کے بعد پریکٹیکل لائف میں آنے کا سوچتے ہیں حالانکہ اس کی شروعات دورانِ تعلیم ہی ہو جانی چاہیے تاکہ آپ جو تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ پروفیشن میں بھی مددگار ہو سکے۔
دنیا: اس کا مطلب ہے کہ آپ نے تعلیم مکمل کرنے سے قبل فیصلہ کرلیا تھا کہ فنکارہ بننا ہے؟
عائزہ خان: جی ! آپ درست کہہ رہے ہیں، میں نے دورانِ تعلیم ہی ماڈلنگ اور ایکٹنگ شروع کر دی تھی۔
دنیا: ڈرامہ اور اشتہاری فلموں کی ریکارڈنگز اور شوٹنگز کے لئے جانا تعلیمی کیریئر کو متاثر نہیں کررہا تھا ؟
عائزہ: اس کے لئے سمجھ دار انسان کو توازن رکھنا پڑتا ہے۔ میں نے اپنے شیڈول بنا لئے تھے۔ اکثر یوں بھی ہوا کہ اپنے ادارے میں چھٹی کی درخواست دے کر شوٹنگز اور ریکارڈنگز کے لئے جایا کرتی تھی مگر ایسا بھی ہوا کہ امتحانات کے دنوں میں کام چھوڑنا پڑا۔ دورانِ تعلیم ظاہر ہے اسی کو ترجیح دی جانی چاہیے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تعلیم، آپ کے چنے ہوئے پروفیشن میں مددگار رہ سکتی ہے اگر آپ چاہیں تو شوق اداکاری کا ضرور تھا لیکن کامیابی کے لئے تعلیم ضروری امر ہے جس پر میں نے عمل کیا۔
دنیا: تعلیم آپ کے لئے شوبز میں کتنی مدد گار ثابت ہوئی؟
عائزہ خان: میرا شوق جب میرا پروفیشن بن گیا تو میری تعلیم بہت کام آئی۔ اس فیلڈ میں اپنے آپ کو منوانے کے لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ کام کی نوعیت کو سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اچھا وقت کا انتظار صبر کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ میں نے معاون اداکارہ کے طور پر کیریئر شروع کیا اور اپنا آپ منوانے کے لئے صبر واستقلال کے ساتھ اچھے کردار جاندار سکرپٹ کا بھی انتظار کیا۔ ’’پیارے افضل‘‘ سے ملنے والی شہرت نے مجھے آج ’’میرے پاس ہو تم‘‘ کے ذریعے دنیا بھر میں متعارف کرا دیا۔
دنیا: کیا فلم میں کام کرنے کا ارادہ ہے؟
عائزہ خان: ابھی تک ایسا ہوا تو نہیں کہ بڑے پردے پر آئی ہوں یا کوئی فلم سائن کی ہو لیکن حالیہ دنوں میں اختتام پذیر ہونے والی سیریل کی بے پناہ پذیرائی اور غیر معمولی رسپانس کے بعد ایسا لگتا ضرور ہے کہ جیسے میں نے فلم میں کام کر لیا ہے۔ سیریل جس انداز سے ریکارڈ کیا گیا وہ فلمی انداز تھا۔ اس میں فلموں کی طرح کی سچویشنز تھیں اور ڈائیلاگز بھی کافی بولڈ ہیں حالانکہ فلم کا میڈیم الگ ہے مگر اس سیریل میں ایسے مناظر ہیں جن سے فلم کا گمان ہوا، کم از کم میری سوچ کی حد تک تو ایسا ہی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ابھی فلموں میں کام نہیں کرنا لیکن اگر کوئی بہت اچھی آفر آئی اور میرے ساتھ دانش تیمور کو ہیرو کاسٹ کیا گیا تو ایسی فلم میں ضرور کام کرنا چاہوں گی۔ یوں سمجھ لیں فلم میں کام کرنے کی شرط ہے کہ ہیرو دانش کو ہونا چاہیے اور اُسی کے ساتھ جوڑا بنے گا تو فلم کروں گی ورنہ نہیں۔
دنیا: ٹی وی ڈراموں میں دانش تیمور کے علاوہ کام کررہی ہیں تو فلم میں کیوں نہیں؟
عائزہ خان: اول تو فلم میں کام کرنے کی باقاعدہ کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔ ڈرامہ سیریلز سے ہی فرصت نہیں ملتی ،جس کی بناء پر وقت ہی نہیں ملتا۔ کام کے علاو ہ اپنی فیملی کو وقت دینا ایک فنکارہ کے لئے سب سے زیادہ مشکل ترین امر ہوتا ہے ، بچوں کے لئے وقت نکالنا بہت ضروری ہے،ڈراموں میں کام کرتے ہوئے میں یہ سب بہتر انداز میں کرلیتی ہوں مگر شاید فلم کرتے ہوئے ایسا نہ کرپاؤں گی اور ڈر ہے کہ ذاتی زندگی مشکل میں آ جائے گی تاہم اگر دانش ساتھ ہو تو ہر مشکل آسان ہوسکتی ہے اس لئے فلم ہوگی تو صرف دانش کے ساتھ۔
دنیا: فلموں کی آفرز ہوئی؟
عائزہ خان: کئی آفرز ہوئی ہیں لیکن مسئلہ فیملی اور بچے کا بھی ہے۔دانش کے ساتھ ہونے سے حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔
دنیا: اپنے فنی کیریئر کے بارے میں بتائیں اب تک اپنے کام سے مطمئن ہیں؟
عائزہ خان : فنکار اپنے فن سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا جس دن وہ مطمئن ہوجاتاہے وہ فنکار گھر بیٹھ جاتا ہے ۔اپنے کیریئر میں کئی ایسے یادگار کردار نبھائے ہیں جو ذہن پر نقش ہیں اور جن کرداروں سے میں نے بہت کُچھ سیکھا اور سمجھا ،کبھی ایسی بگڑی ہوئی لڑکی کا کردار کیا جو ماں باپ کی ناک میں دم کئے ہوئے ہے اور کبھی اتنی سمجھ دار اور قابل لڑکی بنی جو بُری طرح مسائل میں گھِری فیملی کو سنبھالتی ہے ۔زیادہ تر ایسے کردار نبھائے ہیں جن کے ذریعے معاشرے کی حقیقی عکاسی کی گئی ہے ،خود بھی کوشش کی کہ ایسا کردار نبھاؤں جو آؤٹ آف کلچر یا سوسائٹی کی روایات واقدار سے قطعی ہٹ کر نہ ہو، جسے دیکھ کر لوگ وابستگی محسوس کریں اور وہ صرف نمائشی کردار نہ لگے۔میں ہر کیریکٹر کو خود پر طاری کرتی ہوں، اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ جانتی ہوں اور پھر جو ٹیلنٹ رب نے دیا ہے، اس کا استعمال کرتے ہوئے کیمرے کے سامنے آجاتی ہوں۔ ’’میرے پاس تم ہو ‘‘میں مہوش کا کردار بہت سے شیڈز لئے ہوئے تھا۔کبھی محبت کرنے والی بیوی اور کبھی خواہشات کی غلام بن جانے والی بے وفا لڑکی، کوشش کی کہ ٹرانسفارمنگ کے وقت ایسا نہ لگے کہ محض ایکٹنگ کررہی ہوں اور ایسا تبھی مُمکن ہو پاتا ہے جب آپ کردار میں ڈوب جاؤ یا کردار کو خود پر طاری کرلو۔
دنیا : اب تک کا فنی کردار جو یادگار بن گیا ہو ؟
عائزہ خان : میرے پاس تُم ہو میں مہوش کا کردار ساری زندگی نہیں بھلا سکوں گی۔ یہ کردار زمین سے آسمان اور پھر آسمان سے گہری کھائی میں گرتا دکھایا گیا ہے ،ناشکرے لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے اور وہ کیسے اپنی ہنستی بستی زندگی آگ میں جھونک دیتے ہیں، اسے بہت ہی موثر انداز میں لکھا گیا ہے۔وقت و حالات کئی بار احساس دلاتے ہیں کہ کام غلط ہوگیا اور انجام بھی غلط ہوگا لیکن مہوش اپنے خدشات کو جھٹک کر آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور فائنلی یہی ہوتا ہے کہ نہ اِدھر کی اور نہ اُدھر کی۔
دنیا : اس کردار کا کریڈٹ کس کو دینا پسند کریں گی ؟
عائزہ خان : ملک میں بہت ڈرامہ نگار ہیں جو فنکار کو دیکھ کر ہی کردار تخلیق کرتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ ان میں خلیل الرحمن قمر سب سے نمایاں ہیں ۔’’پیارے افضل‘‘ کے بعد ایک اوریادگار کردار میرے کریڈٹ پر آیا اس کا کریڈٹ بھی خلیل الرحمن قمر کو ہی جاتا ہے ۔ انہوں نے اس کردار کے جتنے شیڈز لکھے‘ اُن کی بدولت پرفارمنس کا لیول بہت بڑھ گیا اس لئے مُجھے گہری ریاضت اور محنت کے ساتھ کام کرنا پڑ ا۔ ندیم بیگ ڈائریکٹر تھے ، ان دونوں سے کون واقف نہیں۔قمر صاحب کو کردار نگاری اور ڈائیلاگز میں جو کمال حاصل ہے وہ خُدا کی طرف سے تحفہ ہے جبکہ ندیم بیگ نے ہٹ کامیڈی فلمز کے بعد ایک سنجیدہ ڈرامے میں کامیابی پاکر ثابت کیا کہ وہ دونوں میڈیمز پر بھرپور آؤٹ پُٹ دینے کے اہل ہیں! ٹیم کے باقی لوگوں سے زیادہ کامیابی کا کریڈٹ ان دو صاحبان کو جاتا ہے کہ ڈراما ویسے بھی رائٹر کا میڈیم کہلاتا ہے‘ جتنا اچھا لکھا ہوگا اُتنا اچھا ڈراما بنے گا جبکہ ڈائریکٹر تو ہوتا ہی کیپٹن آف دا شپ ہے۔
دنیا : فنی کیریئر میں منفی نوعیت کا کردار کرکے کیا احساس ہوا؟ کیا حقیقی زندگی سے اس کا تعلق ہوسکتا ہے؟
عائزہ خان : زندگی کے سفر میں کئی ایسے کردار ملتے ہیں جو بہ ظاہر مثبت نظر آتے ہیں لیکن قریب جاکر احساس ہوتا ہے کہ ’’ مہوش ‘‘جیسے کردار حقیقی زندگی میں کم ہوں گے مگر‘آپ اپنے آس پاس نظر دوڑائیں‘ ایسی کوئی نہ کوئی لڑکی ضرور مل جائے گی جسے اپنے سیٹ اپ سے تکلیف ہوگی اور جو ہائی فائی زندگی کی خواہش مند ہوگی۔ایسے میں اگر آپ معاشرتی اقدار اور رشتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں اور اس کے علاوہ کُچھ نہ سوچیں کہ جدید دور کی تمام سہولیات چاہئیں تو آپ سے بڑھ کر خواہشات کا غلام کوئی نہیں اور یہ سوچ تباہی کی طرف لے جاتی ہے! محض لالچ میں کوئی عورت خود کو اس حد تک بے وقعت کر سکتی ہے،یہ دکھاکر سمجھایا گیا ہے کہ عورت کو اپنی عزت و وقار کی حفاظت کرنی چاہیے، پرتعیش زندگی کی خواہش اپنی جگہ لیکن اس کے حصول کا یہ طریقہ مُناسب نہیں جو سیریل میں دکھایا گیا ہے۔ ایکٹراپنے کام میں اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب کوئی کردار نبھاتے ہوئے اپنی ذات کی نفی کرے اور کردار میں کھوجائے ۔ مہوش بننے کے لئے میں نے بہت محنت کی اور اپنی ذات کی نفی کرکے کیمرے کے سامنے آئی‘ اُس کا جو فیڈبیک ملا وہ غیرمعمولی ہے ۔ ٹی وی پر فُل باڈی موومنٹ نہیں ہوتی‘ صرف چہرے کے تاثرات سے ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ اندر کیا چل رہا ہے،میں نے کوشش کی کہ لالچ کے بڑھتے لیول کو مناسب طور پر بے نقاب کرو ں، کہیں کہیں مُجھے سخت رویہ اپنانا پڑا جبکہ نجی زندگی میں ایسی بالکل نہیں ہوں،کیمرے کے سامنے کردار میں ڈوبنا اور پھر اپنی زندگی میں واپس آنا آسان نہیں تھا تاہم جس طرح اپنے ٹیلنٹ کا استعمال کیا اور جو تھوڑی بہت محنت کی‘ اُس کا صلہ غیرمعمولی ہے اور اس کے لئے سب کی شکرگزار ہوں۔
دنیا : شہر ت و مقبولیت کے جس مقام پر آج پہنچ چکی ہیں اس بارے میں کیا کہنا پسند کریں گی۔
عائزہ خان : ذاتی طور پر ان خوش نصیب فنکاروں میں شامل ہو چکی ہوں جس کو اس وقت جو شہرت ملی ہے اس کا تصور سیریل سائن کرتے وقت بھی نہیں سوچا تھا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارا کام پرفیکٹ ہے لیکن مل جُل کے جیسا بھی کام کر پائے‘ ہماری کیمسٹری لوگوں کو پسند آئی۔ جیسا ڈراما سیریل کا ٹاپک ہے‘ عام طور سے سوسائٹی میں اس پر بات بھی نہیں کی جاتی لیکن یہ تلخ سچائی بہرحال موجود ہے‘ اس کا سامنا جس انداز میں کیا گیا ہے‘ وہ انداز لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچا ہے! ہمارے آس پاس بہت ہی باصلاحیت لوگ ہیں، پاکستان میں ڈائریکٹرز‘ رائٹرز اور ایکٹرز کی کمی نہیں مگر میرے پاس تم ہو جیسا شاہکار سالوں میں بنتا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اچھا کام کرنے والے تو کئی ہیں مگر قسمت کسی کسی کو ایسی پذیرائی بخشتی ہے، اس لئے ہم اپنے اصل خالق یعنی رب کے بہت شُکرگزار ہیں کہ اُس نے ذرا سی محنت کا صلہ اتنی بڑی کامیابی کی صورت دیا۔
دنیا: اپنے فینز کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
عائزہ خان: میں ان کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وہ ملکی فلموں و ڈراموں کے ساتھ ساتھ ملکی مصنوعات کو بھی ترجیح دیں ، غیر ملکی برانڈڈ ہر فرد کی قوت خرید سے باہر ہیں ۔ ملکی سینما گھروں میں جس طرح میری سیریل کو ملک بھر کے شائقین نے سینما آباد کئے ان سب کی مشکور ہوں۔