تازہ اسپیشل فیچر

ستاروں کی زندگی میں جھانکنا پرستاروں کا حق ہے، احد رضا میر

تفریح

لاہور: (دنیا نیوز) مشہور فلمی ستاروں کے بچوں کے لیے انڈسٹری میں چانس پانا قدرے آسان ہوتا ہے، یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ اس انڈسٹری میں وہی آگے بڑھ سکتا ہے جس میں ہنر ہو۔ شوبز کی دنیا میں داخل ہونا کوئی کمال نہیں بلکہ اصل چیز صلاحیتوں کا اظہار کرکے جگہ بنانے کی ہے۔

29 ستمبر 1993ء میں کراچی میں جنم لینے والے آصف رضا میر کے صاحبزاد ے احد رضا میر کو فنکارانہ صلاحیتیں ورثے میں ملیں۔ ان کے دادا رضا میر پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ (1948) کے عکاس تھے۔

اس لئے احد رضا میر نے باپ دادا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شوبز کو کیریئر بنانے کا فیصلہ بہت چھوٹی عمر میں ہی کر لیا تھا۔ 2010ء میں ٹی وی اداکار کے طور پر فنی کیریئر کا آغاز ہدایتکار بابر جاوید کی ڈائریکشن میں بنائی گئی سیریل ’’خاموشیاں‘‘ میں اداکار فیصل رحمان اور ثانیہ سعید کے بیٹے کا کردار ادا کرکے کیا۔

بعد ازاں احد رضا میر تعلیم کے لئے کینیڈا چلے گئے جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف کالگری سے بی بی اے میں ڈگری کے لئے کلاسز لینا شروع کیں لیکن پھر بی ایف اے کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ بطور فنکار کام کرنا چاہتے تھے۔

بی ایف اے کی سند لینے کے دوران انہوں نے کینیڈا اور دیگر ممالک میں تھیٹر میں کام شروع کیا۔ 2014ء میں انہوں نے ویسٹ سائیڈ سٹوری، اے پکچر ود اے بل، دی ٹمپیسٹ، رومیو اینڈ جولیٹ، نوٹی بٹ نائس پیش کرکے شہرت پائی۔

نوٹی بٹ نائس پلے پر انہیں کالگری تھیٹر کا ایک ایوارڈ مل گیا۔ 2015ء میں دی شیکپئر کمپنی کا ڈرامہ ’’میکبتھ ‘‘ اور ڈرامہ ’’بنگال ٹائیگر اٹ دی بغداد زو‘‘ پیش کئے۔ 2019ء میں ’’ہیملٹ ‘‘ پیش کرکے بہتر ین اداکار کا ایوارڈ حاصل کیا۔

چنانچہ کینیڈا میں اس نوجوان نے اداکاری کی تعلیم حاصل کی اور پھر وہاں تھیٹر پر کام کرنے کے بعد جب پاکستان واپسی ہوئی تو یہاں کے شوبز ورلڈ میں بہت کچھ کرنے کا خواہش مند تھا، سو اس کے لیے احد کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور ’’سمی ‘‘ میں ایک کردار اس نوجوان کے حصے میں آگیا۔

احد رضا میر نے اپنے ٹیلنٹ دکھانے میں دیر نہیں لگائی۔ اداکاری کے جراثیم اسے ورثے میں ملے ہیں۔ جلد ہی ایک اور ڈرامہ ’’ یقین کا سفر‘‘ میں چانس مل گیا۔ سجل علی کے ساتھ اس سیریل میں کام کرکے شہرت ہی نہیں ملی بلکہ بہترین پرفارمنس پر بہترین اداکار ایوارڈ بھی مل گیا۔

آج کل ہدایتکار حسیب حسن کی سیریل دھوپ کی دیوار میں مصروف ہیں۔ ان کی بیگم اداکارہ سجل علی ان کے ہمراہ ہیں۔ ذاتی طور پر پروڈیوسر کے طور پر چترال ویلی میں رہنے والے کیلاش لوگوں کے حوالے سے ایک فلم ’’کیلاشہ ‘‘ بنائی ہے جس کی ریلیز سینما ہال کھل جانے کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔ زیرِ نظر انٹرویو میں احد رضا میر سے ان کے بچپن اور اداکاری کے علاوہ کیریئر کے حوالے سے بھی بات ہوئی ، ملاحظہ کیجئے۔

سوال: نئے چہرے کی حیثیت سے انڈسٹری نے کس قسم کا برتاؤ کیا؟

احد رضا میر: انڈسٹری کے لوگوں کے برتاؤ کو میں زبردست ہی کہوں گا۔ میں نے تو اس انڈسٹری کو کھلی بانہوں سے قبول کرنے والا پایا۔ کیریئر کے شروع میں ہی اچھے لوگوں سے واسطہ پڑا جن میں سے کئی ایک سے دوستیاں بھی ہوئیں۔ خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ جس جگہ پہنچنا چاہتا تھا، وہاں آگیا ہوں اور یوں میرے من پسند کیریئر کا اچھا آغاز ہو چکا ہے۔

سوال: آپ کے نام کے ساتھ رضا میر لگا ہوا ہے تو کیا سمجھتے ہیں ،اس حوالے کی وجہ سے انڈسٹری میں داخل ہوئے؟

احد رضا میر: رضا میر ہونے پر مجھے فخر ہے لیکن اس نام کے سہارے انڈسٹری میں نہیں آیا بلکہ خود کو ثابت کیا ہے اور خوب محنت کے بعد میرٹ پر کام حاصل کیا ہے۔ نہ تو بابا کا نام استعمال کیا اور نہ ہی انہوں نے کردار حاصل کرنے میں میری کوئی مدد کی۔ میں نے اپنے بل بوتے پر آڈیشنز دیئے اور صلاحیتوں کی بنیاد پر منتخب ہوا۔ ٹی وی کے لیے ابھی بہت زیادہ کام نہیں کیا لیکن کینیڈا میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہاں تھیٹر پر بہت کچھ کیا اور اس سے میری صلاحیتوں میں نکھار آیا۔ میں نے فائن آرٹس میں بیچلرز کیا ہے اور اداکاری و ہدایت کاری کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس طرح خود کو شوبز کے لیے تیار کرتا رہا،یہ بھی بتا دوں کہ کینیڈا میں بیسٹ ایکٹر کے ایوارڈزبھی پاچکا ہوں ۔ فخر سے کہتا ہوں کہ یہاں کی انڈسٹری میں اپنی محنت کے سہارے آیا ہوں۔

سوال: لیکن پھر بھی کیا نہیں سمجھتے کہ کسی بڑے اسٹار کے بیٹے کے لیے سفر کسی قدر آسان ہوجاتا ہے؟

احد رضا میر: شوبز میں یہ اہم نہیں ہوتا کہ آپ اسٹارکے بیٹے ہیں یا نہیں بلکہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ آپ صحیح وقت پر صحیح جگہ پہنچ جائیں ۔ اس حوالے سے خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ بالکل مناسب وقت پر شوبز جوائن کیا۔ ٹھیک ہے کہ رضا میر، میرے نام کے ساتھ جڑا ہے اور اس سے کچھ نہ کچھ فائدے بھی ملتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس کا ایک نقصان یہ ہے کہ میرا موازنہ بابا سے کیا جاتا ہے جوکہ مناسب نہیں، سب جانتے ہیں کہ انہوں نے کیسا کیریئر انجوائے کیا اور اس دوران ان کا خاص مقام بنا جبکہ میرا تو ابھی ابتدائی دور ہے لہٰذا ان کے ساتھ کمپیئر کیا جانا کسی طرح بھی درست نہیں۔

سوال: ٹی وی پر پہلے چانس کا کس کو کریڈٹ دیتے ہیں؟

احد رضا میر: آج اگر میں چھوٹی اسکرین پر کامیاب ہوں تو اس کا زیادہ تر کریڈٹ مومنہ درید کو جاتا ہے جوبہت عرصے سے میرے کیریئر کو فالو کررہی تھیں، انہیں معلوم تھا کہ میں کینیڈا میں اداکاری پڑھ رہا ہوں سو جب تعلیم مکمل کرکے یہاں آیا تو مومنہ وہ پہلی شخصیت تھیں جنہیں میں نے فون کیالیکن انہوں نے آصف رضا میر کا بیٹا ہونے کی وجہ سے مجھے کردار آفر نہیں کیے بلکہ میں نے ہر کیریکٹر کے لیے باقاعدہ آڈیشن دیا اور جب مطمئن کرنے میں کامیاب ہوا تب ہی رول میرے حصے میں آیا لیکن پھر بھی کچھ لوگ مجھ پر سرمایہ لگاتے ہوئے گھبرا رہے تھے کیونکہ میں ایک نیا نام تھا، خیر اس طرح میرے کیریئر کی شروعات ہوئی۔

سوال: آپ نے کہا کہ کینیڈا میں اچھا خاصا تھیٹر کیا اور وہاں ایوارڈ زبھی ملے تو پھر وہاں قیام کیوں نہیں کیا اور پاکستان شوبز انڈسٹری میں کیوں آئے حالانکہ ہمارے یہاں زیادہ تر لوگ ہالی وڈ جانے کی خواہش رکھتے ہیں؟

احد رضا میر: میں کیوں پاکستان آیا، یہ آپ نے پوچھا ہے جبکہ میرا سوال ہے کہ کیوں نہیں آتا؟ یہ ملک میری پہچان ہے، میرے باپ دادا کی سرزمین ہے لہٰذا میرا فرض تھا کہ اپنے بزرگوں کی اس سرزمین کا کچھ حق ادا کروں اور باپ دادا نے جو ورثہ چھوڑا ہے اسے لے کر آگے چلوں اسی لیے اس سرزمین پرواپس آیا۔

سوال: آپ کی پہلی اور اب تک کی اکلوتی فلم ’’پرواز ہے جنون‘‘ کی بات ہو جائے کہ اس کا حصہ کس طرح بنے؟

احد رضا میر: شروع میں اس فلم کا حصہ نہیں تھا اور عثمان خالد بٹ کو میرے والے کردار کے لیے کاسٹ کیا گیا تھا مگر پھر حالات کچھ ایسے ہوئے کہ وہ پروجیکٹ سے الگ ہوگئے اور میں نے اس کردار کے لیے آڈیشن دیا، اس طرح ’’پرواز ہے جنون‘‘ کا حصہ بن گیا۔خوشی ہے کہ اتنی اچھی مووی ملی، اس فلم کے ذریعے فلمی ناظرین کو ناصرف اچھی کہانی دیکھنے کو ملی بلکہ پاکستان کی خوب صورت لوکیشنز سے بھی وہ لطف اندوز ہوئے، اس فلم میں کام کرنا ایک زبردست تجربہ ثابت ہوا جسے کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔

سوال: ورائٹی رولز پسند ہیں یا فارمولا ٹائپ؟

احد رضا میر:کون سا ایکٹر نہیں چاہتا کہ وہ اچھے ورائٹی شوز کرے، اب تک کے کیریئر میں تھوڑا بہت جو بھی کام کیا ہے، اس میں ورائٹی شو کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ ابتدائی دو ڈراموں ’’سمی‘‘ اور ’’یقین کا سفر‘‘ میں کردار ایک دوسرے سے ہٹ کر تھے، آئندہ بھی ایسے ڈرامے کرنا چاہوں گا جن میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملے۔

سوال:مستقبل میں اپنے لیے کیا دیکھتے ہیں؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ ایک لیجنڈ تیار ہورہا ہے؟

احد رضا میر: اس وقت مستقبل کے حوالے سے کچھ بھی کہنا مشکل ہوگا بس خواہش ہے کہ خود میں بہتری لے کر آؤں ،اپنے آپ کو ثابت کر کے دکھاؤںاور اس کے لیے بھرپور کام کر رہا ہوں۔ ہمیشہ ہر قسم کے حالات کے لیے تیار رہتا ہوں مثلاً اگر مسترد کیا جاتا ہے تو اسے بھی اچھے طریقے سے ہینڈل کرسکتا ہوں۔ ایکٹنگ میرا شوق ہے سو یہی سوچ رکھا ہے کہ اسے اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ آگے بڑھاؤں گا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا میری شکل میں ایک لیجنڈ کی تیاری ہورہی ہے تو ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا، کوشش ہے کہ بابا کی طرح زبردست کام کروں اور یوں وہ مجھ پر فخر کرسکیں کہ دیکھو یہ میرے بیٹے کا ڈرامہ ہے جس طرح جب بابا کا کوئی پلے آن ایئر جاتا تھا تو دادی بہت شوق سے دیکھتی اور کہتی تھیں کہ ’’دیکھو! میرے بیٹے کا ڈرامہ آرہا ہے‘‘۔ سو میں بھی چاہتا ہوں کہ گھر والوں کی طرف سے یہی پسندیدگی مجھے بھی ملے۔خواہش ہے کہ بابا کی طرح سو فیصد نہیں تو کم از کم نوے فیصد ہی کام کر سکوں۔

سوال: بابا کے دور کو اگر آج کے حالات سے کمپیئر کریں تو کیا فرق محسوس ہوتا ہے؟

احد رضا میر: پہلے کے مقابلے میں آج مقابلہ سخت ہے اورناظرین کو متاثر کرنا بڑا چیلنج بن گیا ہے، پہلے صرف ایک پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور لوگ رات آٹھ بجے کے ڈرامے کا شدت سے انتظار کرتے تھے مگر آج بہت سے چینلز ہیں، سینکڑوں ایکٹرز ہیں سو اس بھیڑ میں خود کو نمایاں کرنا اور لوگوں کی توجہ پانا بے حد مشکل ہے۔ آج کے ایکٹر کو صرف ایکٹنگ ہی نہیں بلکہ بہت کچھ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کے وہ منظر پر خود کو نمایاں کرنے میں کامیاب ہوپاتا ہے ورنہ آپ لمحوں میں نگاہوں سے اوجھل بھی ہوسکتے ہیں۔

سوال: انٹرنیٹ کے اس دور میں سوشل میڈیا کی بھی خاص اہمیت ہوگئی ہے اور ایکٹرز اپنے فینز سے جڑے رہنے کی خاطر اس کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں،آپ کیا کہتے ہیں؟

احد رضا میر: پہلے سوشل میڈیا کا اتنا شوقین نہیں تھا مگر جب پاکستان آیا تو اندازہ ہوا کہ اس کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ یہاں کے لوگ اپنے پسندیدہ فنکاروں کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ جاننے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور ان سے جڑے رہنا چاہتے ہیں، یہ اچھی چیز ہے کیونکہ ہم لوگ انہی کے لیے کام کرتے ہیں سو ان کا حق ہے کہ وہ ہماری زندگیوں کے بارے میں بھی جانیں لہٰذا اب میں نے سوشل سائٹس پر توجہ دینا شروع کردی ہے تاکہ اپنے چاہنے والوں سے جڑا رہوں اور انہیں اپنے حوالے سے وہ تمام معلومات فراہم کروں جس کا وہ حق رکھتے ہیں۔

ستاروں کی زندگی میں جھانکنا فینز کا حق ہے ۔اسی وجہ سے میرے فینز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، اس حوالے سے ایک واقعہ شیئر کروں گا کہ پچھلے دنوں پبلک پلیس پر ایک فین میرے پاس آیا اور کہا کہ وہ میرے ساتھ سیلفی لینا چاہتا ہے، اس کی یہ فرمائش مجھے عجیب سی لگی کیونکہ یہ چیز ہمیشہ بابا کے ساتھ ہی دیکھی تھی کہ جہاں کہیں وہ جاتے تو فینز ان کے اردگرد جمع ہو جاتے تھے بہرحال پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی پبلک پلیس پر میرا بھی کوئی چاہنے والا ملا اور اس وقت سمجھ نہیں آیا کہ کس طرح کا رد عمل دوں۔

تحریر: مرزا افتخار بیگ