تازہ اسپیشل فیچر

تاریخی حادثہ….طوفانی رات میں کیپٹن پر کیا گزری؟

لاہور: (طاہر جاوید مغل) یہ انیسویں صدی کی ساتویں دہائی کا واقعہ ہے، لوہے کے بحری جہاز نئے نئے بننے شروع ہوئے تھے، پہلے بحری جہازوں کی تعمیر میں صرف لکڑی استعمال کی جاتی تھی۔

برطانوی ڈیزائنر کیپٹن کوپرکولز( captain Cowper Phipps Coles) نے بالکل نئی طرز کا بحری جہاز ڈیزائن کیا جسے ایک برطانوی فرم نے بنایا، اس جہاز میں خاص بات یہ تھی کہ اس کے اوپر توپوں کا عرشہ متحرک بنایا گیا تھا جس پر توپیں چونکہ چاروں طرف حرکت کر سکتی تھیں اس لئے نشانہ لینے میں آسانی رہتی تھی۔

کوپر کولز نے اس جہاز کو دیکھ کر اس کی بناوٹ میں بہت سی خامیوں کی نشاندہی کی تھی، ان خامیوں کے فرق کو ظاہر کرنے کیلئے اس نے خود ایک جہاز بنانے کا فیصلہ کیا، اس جہاز کا نام ’’کیپٹن‘‘ رکھا، اس پر بھی متحرک توپوں کا عرشہ بنایا گیا، اس کے فری بورڈ کی چوڑائی صرف 9 فٹ تھی، اس کے علاوہ اس کی بیرونی دیواروں کی اونچائی بھی خاصی کم تھی۔

کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ یہ جہاز طوفانی سمندر میں سفر کرنے کے قابل نہیں ہے، اس کے علاوہ جہاز پر موجودہ فالتو بادبان نصب تھے، کوپر کولز کے کہنے کے مطابق ان بادبانوں کا مقصد جہاز کے توازن کو برقرار رکھنا تھا لیکن ماہرین نے ان بادبانوں کو جہاز پر خطرناک بوجھ قرار دیا۔

مکمل ہونے کے بعد’’ کیپٹن‘‘ کو اس کے مد مقابل جہاز کے ساتھ ایک آزمائشی سفر پر روانہ کیا گیا، آزمائش کے دوران ’’کیپٹن‘‘ نے دوسرے جہاز کے مقابلے میں اس قدر بہتر کارکردگی دکھائی کہ جہاز کی مخالف میں اٹھنے والی تمام آوازیں دب کر رہ گئیں، آخر کار اعلیٰ حکام نے مطمئن ہونے کے بعد ’’کیپٹن‘‘ کو میڈی ٹرینین کے بحری بیڑے میں شامل کر دیا۔

اس بحری بیڑے کے ہمراہ کیپٹن 6 ستمبر1870ء کو سپین کے ساحل سے فوجی مشقوں کیلئے روانہ ہوا، ان فوجی مشقوں کا بنیادی مقصد لوہے کے بنے ہوئے جہازوں کی کارکردگی کا کھلے سمندر میں جائزہ لینا تھا، پہلے ہی سفر میں طوفان، بارش اور سرکش موجوں نے بدقسمت جہاز پر یلغار کی اور حالات نہایت سنگین ہوگئے تو کپتان برجائن نے فوراً بادبان کھولنے کا حکم دیا لیکن اس سے بیشتر کہ باد بان کھولے جاتے ’’کیپٹن‘‘ نے بھپرے ہوئے سمندر کے آگے سپر ڈال دی۔

ایک دیو قامت لہر آئی اور اس نے جہاز کو الٹا دیا، کپتان برجائن اور ڈیوٹی پر موجود دوسرے اہلکاروں نے چند لمحوں بعد خود کو کمر تک پانی میں ڈوبے ہوئے پایا، جہاز ایک طرف کو جھک گیا تھا لیکن ابھی پوری طرح الٹا نہیں تھا۔

اس بات کی تھوڑی امید تھی کہ شاید جہاز دوبارہ سیدھا ہوجائے لیکن طوفانی لہروں کے پے درپے ضربوں نے جہاز کو سیدھا ہونے کا موقع نہیں دیا، کچھ دیر بعد جہاز پوری طرح الٹ گیا، سرکش لہریں جہاز کے اوپر چڑھ دوڑیں جہاز کی خالی جگہوں میں سمندر کا پانی تیز رفتاری سے داخل ہونے لگا اور ہرطرف چیخ و پکار بلند ہونے لگیں، جہاز کے نچلے حصوں میں موجود تمام افراد جہاز الٹنے کے صرف بیس سیکنڈ بعد ختم ہوگئے۔

زندہ بچ جانے والوں میں سے رابرٹ ہرسٹ نامی ایک ملاح کا کہنا ہے جہاز الٹنے سے چند لمحے بیشتر ہی میں ایک ستون کو تھامے کھڑا تھا، میری کوشش تھی کہ حتی الامکان اپنے حواس کو قابو میں رکھوں، جب جہاز سمندر میں الٹ گیا تو میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح سمندر میں گر پڑا، پھر میں جہاز کے ساتھ ہی سمندر کی تہہ میں بیٹھتا چلا گیا۔

رابرٹ ہرسٹ نے کہا ک کافی نیچے جانے کے بعد میں نے اپنی قوت جمع کی اور سطح پر آنے کیلئے ہاتھ پائوں مانے لگا، تھوڑی ہی دیر بعد میں سطح سمندر پر تھا، مجھے قریب ہی ایک لکڑی تیرتی ہوئی نظر آئی میں نے کئی دفعہ لکڑی پر اپنی گرفت مضبوط کرنی چاہی لیکن بپھری ہوئی لہروں نے میری یہ کوشش ناکام بنادی۔

اتنی دیر میں مجھے ایک لانچ نظر آئی، یہ لانچ اوپر سے کینوس کے ساتھ ڈھکی ہوئی تھی اور آہستہ آہستہ ہوا کے رخ پر کھسک رہی تھی، طوفان اور تاریک سمندر میں یہ امید کی واحد روشن کرن تھی، میں نے اپنی رہی سہی طاقت کو جمع کیا اور تیرتا ہوا لانچ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا، لانچ کے ساتھ اور بھی کئی افراد چمٹے ہوئے تھے۔

تھوڑی دیر بعد ہمیں جہاز کی وہ کشتی نظر آئی جو جہاز کے الٹتے وقت اس کے عرشے سے جدا ہو کر سمندر میں گر گئی تھی، یہ کشتی اس وقت سمندر میں اوندھے منہ ہوچکی تھی لیکن تیر رہی تھی، کپتان برجائن سمیت چھ افراد اس کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے ان میں سے چار نے کشتی کو چھوڑ دیا اور تیرتے ہوئے لانچ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

اب کپتان برجائن اور مے نامی ایک ملاح کشتی کے ساتھ رہ گئے تھے، اتنے میں ایک بلند لہر آئی اور اس نے لانچ اور کشتی کو ایک دوسرے سے دور ہٹا دیا، تھوڑی دیر بعد مے نے بھی کشتی کو چھوڑ دیا اور بڑی ہمت سے تیرتا ہوا لانچ تک پہنچ گیا، کچھ افراد نے کپتان کی طرف چپو پھینکنے کی کوشش کی لیکن کپتان برجائن نے زبردست ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں چپو پھینکنے سے منع کر دیا۔

اس نے چلا کر کہا خدا کیلئے میری خاطر اپنی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالو، تمہیں چپوؤں کی سخت ضرورت ہے، اس نے اپنے طور پر تیر کر لانچ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن جونہی اس نے کشتی کو چھوڑا کشتی ایک جھٹکے کے ساتھ اس کے سر سے ٹکرائی ایک لمحے میں کپتان برجائن کی جدوجہد ختم ہوگئی اور اس نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیئے اور گہرے پانیوں میں اتر گیا۔

لانچ پر موجود افراد نے تھوڑی دیر بعد ایک بڑے جہاز کی روشنیاں دیکھیں یہ ان کا سٹینٹ نامی جہاز تھا، بہت چیخ و پکار کی لیکن جہاز تک ان کی آواز نہ پہنچ سکی، لانچ پر صرف 18 چپو موجود تھے جو صبح تک بپھری ہوئی لہروں کا مقابلہ کرتے رہے اور آخر کار کیوبن کی بندرگاہ کی روشنیاں دکھائی دیں۔

موت کے سمندر میں گھرے ہوئے قافلے نے زندگی کی دریافت کر لی، دوبارہ زندگی پانے کی خوشی صرف اٹھارہ افراد کے حصے میں آئی تھی جبکہ ’’ کیپٹن ‘‘کے پانچ سو آفیسر اور جوان سمندر کی گہرائیوں میں کھو گئے تھے، جب اس حادثے کی خبر انگلینڈ پہنچی تو ہر طرف کہرام مچ گیا، گھر گھر صف ماتم بچھ گئی۔

طاہر جاوید مغل ایک لکھاری اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔