تازہ اسپیشل فیچر

’’خود کو ترم خان سمجھتے ہو‘‘

لاہور: (خاور گلزار) محاورے اور کہاوتیں اپنے اندر ماضی کی بہت سی کہانیاں سمیٹیں ہوئے ہوتی ہیں، علاقائی، معاشرتی اور کبھی کبھی کسی قوم کی تاریخ ایک فقرے میں بیان کی جاتی ہے، اگر تاریخ کے اوراق الٹے جائیں تو ان کے مفہوم صدیوں پرانے گزرے واقعات ان اوراق پر اپنی کہانیاں بیان کرتے ملتے ہیں۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اگر کوئی اپنے آپ کو کسی کام میں دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے تو اس کیلئے ایک فقرہ استعمال کیا جاتا ہے کہ ’’تم خود کو ترم خان سمجھتے ہو‘‘ یہ فقرہ ہماری روزمرہ زندگی میں عام طور پر بولا جاتا ہے، بہت کم لوگ ہوں گے کہ جو ترم خان کی اصلیت سے واقف ہوں گے کہ یہ فقرہ کیوں بولا جاتا ہے۔

’’ترم خان‘‘ کون ہے؟ حیدر آبادی افسانوں میں ’’ترم خان‘‘ کا نام استعمال ہوتا ہے، ترم خان درحقیقت ایک انقلابی اور آزادی پسند جنگجو تھے، جب انگریز سرکار ہندوستان پر حکمرانی کر رہے تھے تو 1857ء میں برطانوی حکومت کو بغاوت کا سامنا کرنا پڑا، ترم خان نے حیدر آباد سے اس بغاوت میں نمایاں کردارادا کیا۔

حیدرآباد کے رہنے والے اکثر ایک دوسرے کو ترم خان کے نام سے پکارتے ہیں تاہم، بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ افغانی نژاد ترے باز خان، 1857ء کی بغاوت کے دوران برٹش ریذیڈنسی پر حملے کے منتظمین میں سے ایک تھا، انگریز بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر بغاوت ریاست حیدرآباد تک پھیل جاتی تو وہ اس پر قابو پانے اور اسے ختم نہ کر پاتے۔

درحقیقت، حیدرآباد کے اس وقت کے وزیر اعظم نے اس وقت کے برطانوی باشندے کرنل ڈیوڈسن کو بتایا کہ بغاوت کا امکان نہیں ہے اور 17 جولائی کو جمعہ کے خطبہ کے دوران کسی نے جہاد کی دعوت نہیں دی تھی، تاہم، شام تک روہیلوں نے ریزیڈنسی پر چاروں سمتوں سے حملہ شروع کر دیا جس کی قیادت ترے باز خان اور مولانا علاؤالدین کر رہے تھے۔

انگریزوں نے حملے کو پسپا کرنے کیلئے اپنی 12 توپ خانے کی فیلڈ گنوں میں سے نصف، 1204 کیولری سیبرز اور 1200 پیادہ فوج بھیجی تھی، بعدازاں ترے باز خان کو گرفتاری دینے سے انکار کرنے پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا جبکہ علاؤالدین کو انڈمان جیل میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔

آزادی کے جنگجو ترم خان کا اصل نام تورباز خان تھا، وہ حیدرآباد کے بیگم بازار میں پیدا ہوئے، ترم خان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ خاص معلومات نہیں ملتیں کیونکہ1857ء کی بغاوت شروع ہوتے ہی ترم خان کا نام منظر عام پر آیا اور بغاوت کے دوران برطانوی سرکار کو ناکوں چبوانے کی وجہ سے ان کا نام زبان زد عام ہوگیا۔

حیدر آباد دکن میں نظام کے وزیر سالار چیدہ خان نے برطانوی درخواستوں کے باوجود باغی فوج سے لڑنے کیلئے دہلی جانے سے انکار کر دیا، اس لیے اسے اور اس کے ساتھیوں کو برطانوی ریذیڈنسی میں نظر بند کر دیا گیا، ترم خان نے ان کو آزاد کرانے کیلئے 5000 سپاہیوں کو جمع کیا، انگریزوں کے خلاف اس جدوجہد میں ان کے ساتھ کئی طلبہ اور انقلابی شامل تھے۔

چیدہ خان کے انکار کے بعد انگریزوں کو اس سارے منصوبے کا علم ہوگیا، انگریزوں نے جو پہلے ہی جنگ کی تیاری کر رہے تھے،17 جولائی 1857ء کو توپوں سے جوابی کارروائی کی، جب ترم خان نے لاٹھیوں اور ساتھیوں سے حملہ کیا، نتیجتاً رات بھر مسلسل فائرنگ ہوتی رہی اور صبح چار بجے تک برطانوی افواج نے باغیوں کو فیصلہ کن شکست دے دی، اگرچہ اس معاملے میں بہت سے آزادی پسندوں نے اپنی جانیں گنوائیں، لیکن انگریز ترم خان کو پکڑنے میں ناکام رہے۔

انگریزوں نے حملہ سے مشتعل ہو کر ترم خان پر 5000 روپے انعام رکھا، نظام کے ماتحت ایک وزیر تراب علی نے ترم خان کے ٹھکانے کا پتہ معلوم کر کے انگریزوں کو فراہم کیا، ترم خان کیلئے کالا پانی ایک طرح کی سزا کے طور پر استعمال کیا گیا، 18 جنوری 1859ء کو ترم خان سزا شروع ہونے سے پہلے ہی انگریزوں سے فرار ہو گیا۔

ترم خان نے کبھی انگریزوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، انگریزوں سے فرار ہونے میں کامیاب ہونے کے بعد اس کی مسلسل تلاش کی گئی، ترم خان کو مرزا قربان علی بیگ نامی ایک تالقدار نے توپارن کے جنگلوں میں چالبازی کے ذریعے قتل کر دیا تھا، لیکن ترم خان ہندوستان کی آزادی کی تاریخوں میں زندہ رہا، ان کے اعزاز میں ہندوستانی حکومت نے حیدرآباد کے یونیورسٹی کالج برائے خواتین کے قریب تری باز خان روڈ تعمیر کی۔

خاور گلزار شعبہ صحافت سے تعلق رکھتے ہیں اور روزنامہ ’’دنیا‘‘ سے وابستہ ہیں۔