تازہ اسپیشل فیچر

مخدوم الاُولیا سیدنا حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) اللہ رب العالمین نے بنی نوع انسان کی رشدو ہدایت اور مقصد تخلیق انسان سے آگاہی کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علہیم السلام کومبعوث فرمایا، جنہوں نے اپنے اپنے ادوارمیں مخلوق کی ہدایت کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا۔

انسان کوظلمتوں سے نکال کر ان کے قلوب میں علم ومعرفت کے چراغ روشن کر دیئے اور پھر قصرِنبوت کی تکمیل کی خاطر نبی آخرالزماں، حضرت محمد مصطفیﷺ کو مبعوث فرمایا، آپﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، اس لئے آپﷺ کے بعد اُمت کی ہدایت ورہبری کیلئے اولیاء کرام یہ فریضہ ادا کرتے رہے اور تا قیامت کرتے رہیں گے، اولیاء کرامؒ نے ہر دور میں پیغام حق عام کیا اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو حق کی راہ دکھائی۔

پاکستان کو پوری دنیا میں اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے اس کی وجہ اس سرزمین پر بزرگان کی تشریف آوری ہے، خلفاء راشدینؓ سے لے کر موجودہ دور تک اسلام کی خدمات میں صلحاء امت کا کردار نمایاں ہے، ان پاکیزہ نفوس نے دینِ اسلام کے فروغ کی خاطر لازوال قربانیاں پیش کیں اور دین مصطفیٰؐ کو بلندیوں تک پہنچایا۔

انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک حضرت علی ہجویریؒ ہیں، آج ایک ہزار سال گزرنے کے بعد بھی خطہ لاہور اللہ کے اس کامل ولی کی عظمتوں کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے اور ان کی آمد پر ان کا شکر گزار ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سید علی ہجویریؒ کا مزار پر انوار اور آپؒ کا فیض عام پوری دنیا میں ہے اور بے شمار لوگوں نے آپؒ سے فیض لیا اور حق تک رسائی ممکن ہوئی۔

آپؒ کا اسم گرامی سید علی ہجویری، کنیت ابو الحسن ہے، آپؒ کا شمار ان بزرگان دین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی عملی زندگی اور افعال و کردار سے انسانیت کی بجھی ہوئی شمع کو پھر سے جگمگایا اور پانچویں صدی ہجری میں برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی وہ شمع روشن فرمائی جس کی ضیاء باریوں سے زنگ آلود دلوں کو نورایمانی اور عشق رسولﷺ سے منور کر دیا، آپؒ اپنے عہد کے امام یکتا اور اپنے طریق میں یگانہ تھے، علم اصول میں امام اور اہل تصوف میں بہت بڑا درجہ رکھتے تھے۔

قطب زماں، غریب نواز، خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے بھی حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پرانوار پر حاضر ہو کر اور آپؒ کی آخری آرام گاہ کے پاس بیٹھ کر چلہ کیا اور انوار الہٰیہ کی بہاریں لوٹیں، آپؒ کی قبر انور کے پاس چار دیواری کے اندر آج بھی وہ جگہ محفوظ ہے جہاں پر بیٹھ کر حضرت سلطان الہند خواجہ اجمیریؒ نے چلہ کیا تھا اور اپنے دامن کو انوارات کی دولت سے مالا مال کیا تھا، آج بھی ان کے عقیدت مند اس جگہ پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔

حضور فیض عالمؒ کی ولادت 400 ھ میں غزنی کے قریب ایک گاؤں میں ہوئی، ہجویر، جلاب، غزنی کے دو علاقے ہیں اس لئے آپؒ کو جلابی اور ہجویری کہتے ہیں، آپؒ کے والد محترم کا اسم گرامی عثمان بن علی بن عبدالرحمان ہے، آپؒ کا پورا گھرانہ زہد و تقویٰ میں مشہور ہے، بچپن ہی سے اللہ نے آپؒ کو اپنے خصوصی فضل و کرم انعامات اکرام سے نوازا، عالم شباب میں ہی آپؒ تمام علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کر چکے تھے۔

ان علوم کیلئے آپؒ نے اپنے وقت کے مایہ ناز اور بے بدل علمائے کرام اور مشائخ عظام سے اکتساب فیض لیا، خاص کر اپنے شیخ طریقت حضرت ابو الفضل محمد بن حسن جیسے جلیل القدر بزرگ سے استفادہ کیا اور ان ہی کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف اعظم حاصل کیا، آپ نے تصوف و معرفت کے تمام اسرار و رموز ان کی صحبت میں رہ کر حاصل کئے اور تصوف و طریقت کی تمام منازل سلوک بھی ان ہی کی صحبت میں رہ کر پورے کئے۔

آپؒ نے اپنی زندگی کا کافی حصہ روحانی تجربات اور تزکیہ نفس کی خاطر سیر و سیاحت میں گزارا، دوران سیاحت آپؒ بغداد شریف، طبرستان، خراسان، ماورا، النہر، شام، ترکی اور عراق تشریف لے گئے، وہاں بے شمار اولیاء اور صوفیائے کرام سے علم و روحانی فیوض وبرکات حاصل کئے، آپؒ کے مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن حسن نے ایک روز آپؒ کو یہ حکم دیا کہ آپؒ تبلیغ اسلام تصوف و طریقت اور لوگوں کی رشد وہدایت کیلئے لاہور جائیں۔

آپ فوراً اپنے مرشد کے حکم کی تکمیل کیلئے لاہور کے شمالی گیٹ کی طرف دریائے راوی کے کنارے ٹھہرے، وہاں رات قیام کیا اور اگلے روز شہر میں داخل ہو گئے، آپؒ نے بے شمار کافروں کو دین اسلام میں داخل کیا اور ان کے قلوب کو عشق رسولﷺ سے معطر فرما دیا، آپؒ کی نورانی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ بے شمار لوگ برکت سے مرتبہ ولایت پر فائز ہوئے۔

آپؒ کے لاہور آنے سے قبل حضرت میراں حسین زنجانیؒ جو ایک کامل بزرگ تھے یہاں دین اسلام کی خدمت کر رہے تھے، جس دن حضرت علی ہجویریؒ لاہور تشریف لائے اسی شب شیخ میراں زنجانیؒ نے وصال فرمایا، لاہور میں اپنی پر خلوص کوششوں سے آپؒ نے تعلیمات رسولﷺ کو عام کیا اور بھٹکے ہوئے انسانوں کے دلوں کو عشق مصطفیﷺ کی شمع سے منور فرمایا اور ان میں علوم دین حاصل کرنے کا شوق پیدا کیا، آپؒ کی کوششوں سے ہزاروں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام میں داخل ہوئے جن میں لاہور کا ایک راجہ بھی شامل تھا۔

تصوف اور علوم دینیہ میں آپؒ کا درجہ بہت بلند ہے، حضرت خواجہ معینؒ الدین اجمیری اور حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ جیسے اولیائے کرام نے آپؒ کے مزار سے فیض لیا اور حضرت خواجہ معین الدین ؒچشتی کا فیض لینے کے بعد یہ شعر آفاق میں مشہور زبان زد عام ہے کہ

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

حضرت علی ہجویریؒ کی مشہور کتاب کشف المحجوب میں تصوف کے اسرار و رموز پر آپؒ نے روشنی ڈالی ہے، ہندوستان میں اسلامی تصوف پر یہ پہلی کتاب ہے، سرزمین لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپؒ نے اپنی یہ معرکہ آرا کتاب یہیں تصنیف فرمائی، یہ آپؒ کی وہ ایمان افروز، باطل شکن، روح پرور، صراط مستقیم دکھانے والی کتاب ہے جو دنیائے تصوف ومعرفت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے مطالعہ سے کئی بھٹکی ہوئی روحیں راہ حقیقت پر گامزن ہو چکی ہیں۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو اس کو کشف المحجوب کے مطالعہ کی برکت سے مل جائے گا، ہر دور کے محققین، مورخین، مصنفین اور صوفیاء اصفیاء بہ صمیم قلب کشف المحجوب کی فضیلت و اکملیت کے معترف ہیں۔

حضرت علی ہجویریؒ خود اس عدیم النظیر کتاب کے دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب ایسے افراد کیلئے تحریر کی ہے جو حجاب غنیی میں گرفتار ہیں یعنی جن افراد کے قلوب میں حقائق و معارف کی تنویر موجود تو ہو لیکن وہ نور حق سے پرنور نہیں، فارسی کی تمام کتابوں میں جو شہرت اس کتاب کو ملی ہے وہ کسی کے حصہ میں نہیں آئی، یہ فارسی زبان میں لکھی جانے والی سب سے پہلی فقید المثال دستاویز ہے اور تصوف میں ایک کامل رہنما ہے۔

مخدوم الاولیاء اسی کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عراق میں دنیا حاصل کرنے اور اسے لٹانے میں پوری طرح مشغول تھا جس کی وجہ سے میں قرض دار ہوگیا جس کسی کو بھی کسی چیز کی ضرورت پڑتی وہ میری ہی طرف رجوع کرتا اور میں اس فکر میں رہتا کہ ہر ایک کی آرزو کیسے پوری کروں گا، ان حالات میں ایک عراقی شیخ نے مجھے لکھا کہ اے فرزند! اگر ممکن ہو تو دوسروں کی حاجت ضرور پوری کرو مگر سب کیلئے اپنا دل پریشان مت کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کا حاجت روا ہے اور اپنے محبوب کے صدقے سب کو دیتا ہے۔

آپؒ نے اپنے عقیدت مندوں کو بھی یہی درس دیا اور فرمایا کہ علم شریعت کے بھی تین ارکان ہیں کتاب، سنت اور اجماع امت، پہلا علم گویا خدا کا علم اور دوسرا علم خدا کی طرف سے بندہ کو عطا کیا گیا ہے، حضرت علی ہجویریؒ نے صوفیاء کے اقوال اور اپنے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ جس شخص کو خدا کا علم یعنی علم حقیقت نہیں اس کا دل جہالت کے سبب مردہ ہے اور جس شخص کو اس کا عنایت کیا ہوا یعنی علم شریعت نہیں اس کا دل نادانی میں مبتلا ہے ۔

آپؒ نے دونوں علموں کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے، جس طرح ظاہری علوم کیلئے اساتذہ کرام کی شاگردی کرنا لازم ہے، اسی طرح باطنی علوم کیلئے مشائخ عظام کی بیعت اور مرید ہونا بھی ضروری ہے، بزرگان دین نے دلائل شریعہ سے ثابت کیا کہ کوئی شخص اس وقت تک کمال کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ کامل کے ہاتھ پر بیعت نہ ہوا ہو، اللہ کا فرمان ہے کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔

حضرت علی ہجویریؒ کا شمار بھی ان اکابر اولیاء کرام میں ہوتا ہے جن کی پاکیزہ جدوجہد سے پنجاب کے خطے لاہور میں علم و عرفان کے چشمے پھوٹے، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سیدنا حضرت علی ہجویریؒ ایک عارف کامل، صوفی باصفا، صاحب فضل و کمال، عالم بے مثال، داعی حق اور پروانہ شمع رسالت تھے، آپؒ کا علمی و روحانی فیض ہمیشہ جاری رہا جو شخص بھی آپؒ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، علم وعرفان ور روحانی دولت سے مالا مال ہوا، مخدوم الاولیاء سلطان الاصفیاء سیدنا علی ہجویریؒ ؒجس جگہ اقامت پذیر ہوئے آپؒ نے وہیں اللہ کا گھر مسجد کی تعمیر کرائی اور خلق خدا کو فیض سے نوازا۔

جب حضرت علی ہجویریؒ تبلیغ اسلام کی خاطر غزنی سے لاہور تشریف لائے، ان دنوں شہر لاہور اور گردونواح کے لوگ اپنے مویشیوں کا ایک وقت کا دودھ لاہور کے ہندو جوگی رائے (شہر کوتوال) کو دیا کرتے تھے، آپؒ کے قیام کے تیسرے دن ایک بڑھیا دودھ اٹھائے جوگی کو دینے جا رہی تھی تو آپؒ نے بلا کر پوچھا تو اس بڑھیا نے کہا کہ میں یہ دودھ لاہور کے کوتوال رائے راجو کو دینے جا رہی ہوں، اگر میں نے دودھ نہ دیا تو میرے جانور دودھ کے بجائے خون دینا شروع کر دیں گے۔

سرکار نے فرمایا یہ دودھ تم مجھے دے دو تمہارے جانور خون نہیں دیں گے، آپؒ کی بات پر وہ بڑھیا اس قدر متاثر ہوئی کہ وہ دودھ آپؒ کو دے کر چلی گئی، جب اس نے گھر پہنچ کر شام کو دودھ دھونا شروع کیا تو خون آنے کے بجائے دودھ کی مقدار میں بھی اضافہ ہوگیا، اس بات کی خبر بڑھیا نے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچائی تو انہوں نے بھی آپؒ کی خدمت میں دودھ دینا شروع کر دیا۔

جب کوتوال شہر رائے راجو کو پتہ چلا تو اس نے اپنی شعبدہ بازیوں سے آپؒ کو اٹھانے کی کوشش کی مگر آپؒ نے اپنی کرامات اور نگاہ کیمیاء اثر سے اسے زیر کر دیا اور اسے بھی کلمہ طیبہ پڑھا کر مسلمان کر دیا اور لقب شیخ ہندی سے مشہور ہوا۔

آپؒ کا وصال مبارک 465ھ کو لاہور میں ہوا، آپؒ کا مزار پاک مرکز تجلیات ربانی ہے، جہاں لاکھوں طالبان حق کو رشد و ہدایت کے جام ملتے ہیں، آپؒ کے عرس مبارک کی سہ روزہ عظیم الشان تقریبات آپؒ کے مزار پاک پر ہوتی ہیں جس میں دنیا بھر سے جید علماء و مشائخ طریقت حاضری کو بہت بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔

اللہ کریم ان صوفیائے کرام کے مقدس آستانوں کو جہاں آج بھی بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ صراط مستقیم ملتی ہے، جہاں آج صدیاں بیت جانے کے بعد بھی ہر لمحہ ذکر خدا، تلاوت کلام مجید درود پاک کی کثرت ہوتی ہے اور جہاں آج بھی بے سکون دلوں کو سکون قلب میسر آتا ہے، اللہ تا قیامت آپ کا فیض جاری و ساری رکھے۔

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب، خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد کیلئے لکھ رہے ہیں۔