میں نے کہا: سر! ذرا رُک جائیے۔ میں اس کٹہرے میں اکیلا کھڑا ہوں‘ نہتے وکلا میرے ساتھ ہیں۔ دوسری جانب دستور میں درج آرٹیکل 7 والی پوری ریاست موجود ہے۔ وزیراعظم کا نمائندہ‘ اسلام آباد پولیس کا نمائندہ‘ پنجاب پولیس کا نمائندہ‘ وزارت ِدفاع اور وزارتِ داخلہ کے لوگ۔ میں نے پاکستان کا دستور اور سارے سویلین اور نان سویلین قوانین‘ آئینی‘ فوجداری اور سول لاز بھی چھان مارے ہیں مگر کسی جگہ ''نیشنل انٹرسٹ‘‘ یعنی قومی مفاد کی Defination لکھی ہوئی نہیں ملی۔ قوم کے عام لوگوں کا قومی مفاد یہ ہے کہ بجلی سستی ہو۔ غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے 10‘ 12 کروڑ پاکستانیوں سے پوچھیں‘ اُن کا قومی مفاد یہ ہے کہ یوٹیلیٹی سٹور اور اُن پر ملنے والی سبسڈی بند نہ ہو۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے: آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن یہاں دستور اور قانون کو مانتا کون ہے؟ میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے نکلا اور شاہراہِ دستور کے دائیں بائیں پُرشکو اور پُراسرارعمارتوں کو دیکھ کر ماضی یاد آنے لگا۔ ایسی ہی عمارتوں میں 1954ء سے 1971ء تک‘ یکے بعد دیگرے تین مارشل لاء لگانے والوں کا قومی مفاد یہ تھا کہ نہ دستور ہو‘ نہ قانون‘ بس ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہے۔ 18 سال تک ان کی قومی مفاد والی تشریح نے پاکستان کے عوام کے سارے وسائل چَٹ کر ڈالے۔ پھر 12 اپریل 1973ء کے روز جو دستور وَن مین وَن ووٹ سے آنے والی اسمبلی نے بنایا تھا‘ اسے 5 جولائی 1977ء کے روز ساڑھے11 سال کے لیے لپیٹ دیا گیا۔ اس دور میں قومی مفاد نے ہمیں نفاذِ اسلام کے نام پر کوڑے‘ ٹکٹکیاں‘ دنیا کے واریئر مہمان‘ امریکی ڈالر‘ روس کے اسلحہ ساز میخائل کلاشنکوف کی بنائی ہوئی AK-47 سے برسنے والی آگ اور ہیروئن کے لازوال تاحیات تحفے عطا کیے۔ ابھی قوم سنبھل نہ پائی تھی کہ ایک بار پھر قومی مفاد میں جنرل پرویز مشرف باری لینے آ گئے اور یہ باری ساڑھے نو سال چلتی رہی۔ مگر نئے میلنیم کے تیسرے عشرے میں تو پچھلی ساری حدیں پار ہو گئی ہیں۔صرف امن وامان کی دنیا سے گزرے کل کی نہیں‘ بلکہ آج کی تین وارداتیں ایسی ہیں جن سے ہمارے سماج کی روح تک کانپ اُٹھی۔اس لسٹ میں موٹروے پر تین خواتین اور بچے کی پُر اسرار ہلاکت کی واردات شامل نہیں۔ نہ ہی نظامِ سرمایہ داری کے نشے میں دھت وہ علامتی واردات‘ جس نے سندھ کی ایک دھی رانی کو بابل کی گود سمیت کچل‘ مسل کر رکھ دیا۔
پہلی واردات: پنجاب میں بیٹیوں کے لیے دھی رانی کے اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ معلوم تاریخ میں پہلی بار شمالی پنجاب کے آخری شہر اٹک میں سکول کے معصوم لباس میں ملبوس پاکیزہ دھی رانیوں پر ٹارگٹ کلنگ کی واردات ہوئی ہے۔ کئی ماؤں کی کوکھ اُجڑ گئی اور کئی بابل دھی رانیوں کے انتظار میں آنکھیں پتھرا بیٹھے۔ نہ کوئی بامعنی تفتیش‘ نہ اصل ملزم کی گرفتاری‘ نہ کُھرا‘ نہ ہی حکمرانوں کا کلیجہ کانپا۔ نہ آسمان پھٹا اور نہ زمین کانپی مگر امرتا پریتم کے قلم کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے:
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نو کیہن
اُٹھ درد منداں دیا دردیا اُٹھ تَک اپنا پنجاب
دوسری واردات: ایک درجن سے زیادہ نوخیز نوجوان نگل گئی۔ پنجاب پولیس کے کرتا دھرتائوں نے کاغذی کارروائی پر زبانی دعوے کے ذریعے کئی بار کچے کو ڈاکوئوں سے نجات دلوائی۔ مگر اس بار پولیس کے ینگ لڑکوں کی جو گرافک وڈیوز آئی ہیں اُن میں بے بسی‘ نہتاپن اور وحشت ناکی خود بول رہی ہے۔ اس واردات کی تفصیلی رپورٹنگ آپ نے دیکھ اور سُن لی۔ اس وقت پنجاب پولیس ایک مکمل سیاسی ادارہ ہے جسے PTI کے جھنڈوں اور پتنگ بازوں کو برآمد کرنے پر لگایا گیا ہے۔ افسران وہی پوسٹنگ پاتے ہیں جو ہاری ہوئی قیادت کو کامیاب بنانے کے لیے پنجاب میں احتجاج پر نئے سے نئے مظالم ایجاد اور استعمال کرتے ہیں۔ سردیوں کی ایک لندن یاترا کے دوران میں نے شدید برف باری میں غلط جگہ سے سڑک کراس کی۔ ایک لمبا چوڑا پولیس آفیسر میرے ساتھ ساتھ چلتا ہوا آیا اور مجھے ایک پمفلٹ تھمایا۔ آفیسرنے دستانہ اُتارا‘ مجھ سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف ان لفظوں میں کرایا: میں لندن کا چیف کانسٹیبل ہوں (یعنی آئی جی)۔ پنجاب کے پولیس سٹیشن کا نام دار الامن رکھنا ایسا ہی ہے جیسے رُکے ہوئے پانی کے جوہڑ پر لکھ کر لگا دیا جائے ''تکیہ گاہ‘‘ اور لوگوں سے توقع کی جائے کہ وہ اس میں گھس کر تکیہ لگائیں گے اور سستائیں گے۔
تیسری واردات: اوریا مقبول جان والی ہے۔ ایک باضمیر قلم بردار‘ جس نے جوانی سول سروس آف پاکستان کو دی۔ تین واردتوں سے عیاں تین کہانیاں آپ پڑھ چکے۔چوتھی کہانی یہ ہے کہ ان تینوں وارتوں میں پنجاب پولیس نے صرف ایک دہشت گرد فوراً پکڑ لیا۔ وہ بھی گریبان سے‘ بازوئوں سے اور گردن سے۔ آپ درست سمجھے۔ ڈیجیٹل دہشت گرد اوریا مقبول جان۔ نجانے کیوں اوریا کی گرفتاری اور یومِ احمد فراز اب کے ساتھ ساتھ آئے۔ جس نظام میں دہشت گردی کا مطلب یہ ہو‘سمجھ لیں وہ ہر بولنے والی زبان کو محصور کر کے ناز کرتا ہے۔
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا ؍ اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے ؍ کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے ؍ تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے ؍ سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے ؍ کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ ؍ اُسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت ؍ اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ ؍ مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا ؍ جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے ؍ مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا ؍ جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے ؍ مرا قلم نہیں اوزار اُس نقب زن کا ؍ جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے ؍ مرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق ؍ جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے ؍ مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی ؍ جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے ؍ مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی ؍ جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے ؍ مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی ؍ قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے ؍اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا ؍ جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے ؍ میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے ؍ کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا ؍ تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم ؍ مرے قلم کا سفر رائیگاںنہ جائے گا
ہمیں پکا یقین ہے کہ احمد فراز کی طرح اوریا کے قلم کا سفر کبھی رائیگاں نہ جائے گا۔ اُس قلم کار کا سفر کیسے رائیگاں جا سکتا ہے جو جابر سلطان سے پیشگی اجازات کے بغیر لکھتا ہو۔