بہت سالوں بعد لاہور جانے کا اتفاق ہوا‘ اور جب بھی لاہور جائوں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس شہر کی فطرت میں محبت اور میزبانی ہے۔ ایم ٹو سے جیسے ہی سفر کا آغاز کیا تو موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ کار چونکہ میری بہن ڈرائیو کر رہی تھی‘ لہٰذا اس سے پوچھا کہ کوئی دقت تو نہیں ہوگی؟ چکری سے سالٹ رینج تک بارش ہمارے ساتھ رہی تاہم اس نے بڑی مہارت کے ساتھ گاڑی چلائی۔ رجیم چینج اور ارشد شریف کی شہادت کے بعد یہ شہر سے باہر پہلا سفر تھا‘ جس کیلئے میں گھر سے نکلی۔ اس سے پہلے جب بھی موٹروے پر سفر کیا تو ارشد میرے ساتھ ہوتے تھے اور میں بے فکری سے اردگرد کے نظارے دیکھتی رہتی تھی۔ مگر اب وہ بے فکری کا دور کہاں‘ اب تو بس رنج وغم کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی رات ہے لیکن ظلم وصبر کی اس لڑائی میں ایک ہی چیز غالب آئے گی اور وہ ہوگا اللہ کا انصاف۔ شاید کچھ دیر ہے مگر مجھے پورا یقین ہے کہ انصاف ضرور ہوگا۔
لاہور میں مجھے 'مدرز فار پاکستان‘ کے ایک ایونٹ سے خطاب کرنا تھا اور میرا موضوع تھا: سچ کی تلاش۔ سچ بولنا‘ اس کو کھوجنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اگر ماریہ بی کی طرف سے خصوصی دعوت نہ ملتی تو شاید میں اگلے کئی سال بھی سفر کا ارادہ نہ کرتی۔ موٹروے پر سفر کے دوران ایک تحفظ کا احساس رہتا ہے اور اس کی بڑی وجہ ہے موٹروے پولیس۔ پولیس کا بااخلاق عملہ ہر تھوڑے فاصلے پر موجود ہوتا ہے اور بلا جھجھک آپ ان سے مدد مانگ سکتے ہیں۔ موٹروے پولیس شاید وہ واحد پولیس ہے جس کو دیکھ کر پریشانی نہیں ہوتی بلکہ تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ باقی پولیس فورسز کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کہ لوگ انہیں دیکھ کر بے فکر ہو جائیں مگر عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے۔ سڑک پر کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ گاڑی خراب ہو سکتی ہے‘ ٹائر پنکچر ہو سکتا ہے۔ ایسے مسائل سے نمٹنے کیلئے موٹروے پولیس نے ایک ہیلپ لائن بھی بنا رکھی ہے۔ گزشتہ برس سالٹ رینج پر ایک بس ڈرائیور کی تیز رفتاری کی وجہ سے ایک خوفناک حادثہ پیش آیا تھا اس کے بعد سے سالٹ رینج پر موٹروے پولیس بڑی گاڑیوں کو تب تک قطار میں لے کر چلتی ہے جب تک خطرناک پہاڑی علاقہ ختم نہیں ہو جاتا۔ اب یہاں حادثات کی شرح کم ہو گئی ہے۔ میں نے یہ بات بھی محسوس کی کہ موٹروے پر سب سے زیادہ مسافر کوسٹرز اور بسیں تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ان ڈرائیورز کو پروا ہی نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ کتنے لوگ سفر کر رہے ہیں۔ چھوٹی گاڑیوں والوں کو ان کی تیز رفتاری اور بار بار لین تبدیل کرنا شدید کوفت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کلرکہار تک موٹروے پولیس اس ہیوی ٹریفک کو قابو میں رکھتی ہے مگر سکھیکی سے آگے ان کی موج ہو جاتی ہے۔ یہاں ڈرائیور انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ یہاں نسبتاً کم پولیس تعینات ہے۔ موٹروے پولیس کو اس جگہ بھی پٹرولنگ بڑھانی چاہیے۔
جب لاہور کا بورڈ نظر آیا تو میں نے خوشی سے گاڑی کی کھڑکی کھول لی تاکہ محبتوں کے اس شہر کی خوشبو کو محسوس کر سکوں مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کچھ جلنے کی بُو لاہور کی اصل مہک پر غالب تھی۔ سموگ کی وجہ سے شہر نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہ سموگ فیکٹریوں کے دھویں اور آلودگی کی وجہ سے تھی۔ میں نے گاڑی کا شیشہ بند کرکے ماسک پہن لیا اور سوچنے لگی کہ لاہور کے وہ باغ کہاں گئے‘ وہ گل ڈالیاں کہاں گئے‘ وہ پھلوں‘ پھولوں کی مہک کہاں چلی گئی۔ لاہور کے باسی شدید آلودہ ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔ اس فضا میں کچرے کو جلانے کی بدبو‘ ٹریفک کی آلودگی اور آگ کا دھواں نمایاں ہیں۔ میں شام کے وقت جب شہر دیکھنے نکلی تو نہر پر اور دیگر جگہوں پر برقی قمقموں کی مصنوعی روشنیاں بالکل اچھی نہیں لگیں۔ ابھی اپنے گھر کا 80 ہزار روپے کا بل دیا ہے تو بجلی کی ایسی فضول خرچی بہت بری لگی۔ حکمران طبقہ شاید اس چیز کو کبھی سمجھ نہیں سکتا کہ عوام کو مصنوعی سجاوٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ لاہور کے عوام کو صاف پانی‘ صاف ہوا‘ سیوریج کے بہتر نظام‘ اچھی اور سستی رہائش اور صحت افزا ماحول کی ضرورت ہے۔ شہر واضح طور پر امیر اور غریب کی تفریق میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف کچے مکان ہیں دوسری طرف محلات کی قطاریں۔ ایم ایم عالم‘ ڈی ایچ اے‘ ماڈل ٹائون اور گلبرگ میں تو لگ رہا تھا کہ پاکستان کے سب سے امیر شہری یہیں پر رہتے ہیں۔ مگر اندرون شہر کی صورتحال یکسر مختلف ہے۔ جب بارش شروع ہوئی تو یہ تضادات مزید کھل کر سامنے آ گئے۔ گلیاں اور سڑکیں بارش کے پانی سے تالاب منظر پیش کرنے لگیں۔ بجلی کے تاروں کے لٹکتے گچھے دیکھ کر خوف محسوس ہو رہا تھا۔ میرا بہت دل تھا کہ شاہی قلعہ اور مینارِ پاکستان ایک نظر دیکھ آتی لیکن بارش کی وجہ سے پلان مؤخر کرنا پڑا۔ ویسے بھی لاہور میں اب دیکھنے کو صرف کنکریٹ رہ گیا ہے۔ پل‘ فلائی اوورز اور انڈر پاسز نے ایک تاریخی شہر کے تصور کو دھندلا دیا ہے۔ اگر کوئی ڈرون شاٹ لے تو لاہور میں صرف کنکریٹ ہی نظر آئے گا۔ لاہور کا منظر‘ جو کہانیوں‘ ناولوں‘ افسانوں اور شاعری میں کھینچا جاتا ہے‘ اب یہ وہ لاہور نہیں رہا۔ بہت سی سڑکوں پر پنجاب پولیس کے جوانوں کو لفٹ لینے کے لیے بارش میں انتظار کرتے دیکھا۔ رِنگ روڈ‘ ٹھوکر نیاز بیگ‘ گجومتہ اور شاہدرہ میں پولیس کی وردی میں ملبوس اہلکاروں کو سفر کے لیے خوار ہوتے دیکھا۔ یہ منظر دیکھ کر سوچنے لگی کہ پولیس کے پاس بھی پک اینڈ ڈراپ کا کوئی سسٹم ہونا چاہیے تاکہ اہلکار اس طرح لوگوں کو روک روک کر لفٹ نہ مانگتے پھریں۔ مگر یہاں ساری مراعات صرف امیروں کے لیے ہیں‘ نچلے طبقات کے لیے کچھ نہیں۔ 'امیر لاہور‘ میں دنیا کا ہر برینڈ موجود ہے‘ سڑکیں پکی اور کشادہ ہیں۔ مارکیٹس اور ریسٹورنٹس عوام سے بھرے ہوئے ہیں۔ مگر غریب لاہور کچی اینٹوں اور ٹین کی چھتوں پر کھڑا ہے۔ فضا میں کچرے کی بو ہے‘ نکاسیٔ آب کا نظام ٹھیک نہیں۔ ہر تھوڑے فاصلے پر سبز رنگ کا پانی کھڑا نظر آتا ہے‘ مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہے۔ بارش میں پرانے ٹائر کو ڈنڈے سے چلاتے بچے واضح طور پر غذائی قلت کا شکار نظر آتے ہیں۔ لاہور جیسے میگا سٹی کو بہت سے منصوبوں کی ضرورت ہے جن میں بچوں کے لیے مفت تعلیم‘ اچھے پارکس‘ صاف پانی اور صاف ماحول سرفہرست ہیں۔ نوجوانوں کو نئی نوکریوں کی اشد ضرورت ہے۔ ان کو مواقع دیے جائیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔ اس کے ساتھ لاہور کو ٹریفک پولیس کی زیادہ نفری کی ضرورت ہے۔ بلدیہ کے محکمے میں بھی مزید بھرتیوں کی ضرورت ہے۔ شہر میں جگہ جگہ وال چاکنگ اور دیوقامت بل بورڈز اس کی خوبصورتی کو گہنا رہے ہیں۔ کاغذی سجاوٹ اور برقی قمقموں سے شہر کو جدید اور ترقی یافتہ نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ سب عارضی ٹوٹکے ہیں‘ جن سے لاہور یا اہالیانِ شہر کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ جب تک گرین انقلاب نہیں آئے گا تب تک یہاں کچھ بھی نہیں ٹھیک ہونے والا۔ اس شہر کو درختوں کی اشد ضرورت ہے۔ میٹرو پل‘ فلائی اوورز اور اندھا دھند تعمیرات کی وجہ سے وہ اونچے بُرج کہیں دھندلا گئے ہیں جو کبھی لاہور کی شان ہوا کرتے تھے۔ اب ان برجوں کو قریب جانے پر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ شہر پہ ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو صرف کنکریٹ اور بل بورڈز ہی نظر آتے ہیں۔ جب تک اس شہر سے آلودگی ختم نہیں ہوتی تب تک اس شہر کا حسن ماند رہے گا۔ ہسپتال‘ صفائی‘ سڑکوں کی مرمت و دیکھ بھال‘ واٹر فلٹریشن اور ویسٹ ڈسپوزل پلانٹس بھی بہت ضروری ہیں۔
لاہور کے شہری بہت خوش اخلاق ہیں۔ حکومت نے انٹرنیٹ کے ساتھ جو کچھ کر رکھا ہے‘ اس کے سبب جی پی ایس نہیں چل رہا تھا‘ جس بھی لاہوری سے راستہ پوچھا اس نے بالکل ٹھیک راستہ بتایا۔ یہاں کے کھانے واقعی بہت لذیذ ہیں اور اس ذائقے سے اسلام آباد محروم ہے۔ دعا ہے کہ اس شہر کے لوگ یونہی شاد وآباد اور اسی طرح زندہ دل رہیں۔ اتنے مصائب‘ سہولتوں کی کمی اور مہنگائی کے باوجود لاہور کے شہری مسکراتے رہتے ہیں اور میزبانی میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔