تعلیمی اداروں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کی منصوبہ بندی کا انکشاف

تعلیمی اداروں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کی منصوبہ بندی کا انکشاف

سیاستدان ، ان کے بچے، وائس چانسلرز، سیکیورٹی اہلکار اور تاجر اغوا کئے جاسکتے ہیں، ذرائع

لاہور (محمد حسن رضا) ملک کے سرکاری و نیم سرکاری تعلیمی اداروں پر طالبان اور اس کے ذیلی گروپس کے حملوں اور اغوا کی منصوبہ بندی کا انکشاف ہوا ہے۔ تقریبات یا کسی پوش علاقے سے سیاست دانوں، ان کے بچوں، وائس چانسلرز، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور تاجروں کو اغوا کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ تعلیمی اداروں اور اہم سرکاری تقریبات میں دہشت گردی اور اغوا کے لیے مولوی ذکراللہ عرف ٹوفی، غفار ذکری ولد عیسٰی،حکیم خان عرف امیر اور دیگر کو ڈیوٹی سونپی گئی ہے۔ طالبان کے ذیلی گروپس نے تعلیمی اداروں میں خود کش حملوں کے لیے لڑکیوں اور لڑکیوں کو ٹاسک دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عسکریت پسندوں نے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں کے جعلی شناختی کارڈ بھی دیئے ہیں جن کی مدد سے وہ کسی بھی جامعہ یا کالج میں داخل ہوکر کلاس میں بیٹھ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی طالبان کا اجلاس افغانستان کے صوبے کنڑ میں ہوا۔ گجرات یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف ایجوکیشن، سرگودھا یونیورسٹی و دیگر سرکاری و نیم سرکاری کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا گیا۔ بعض جامعات کے ہاسٹلز میں طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں کے سینئر عہدیدار خود بھی بھیس بدل کر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے وائس چانسلرز، سینئر پروفیسرز اور دیگر اساتذہ سے رابطے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ بعض اساتذہ بھی طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان سے تعاون کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی بڑھادی گئی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں