پاکستان میں 15سال کے دوران 47صحافی قتل 164زخمی ہوئے
ذرائع ابلاغ سے وابستہ 24افراد دوران ملازمت جان سے گئے ، 21کو اغوا کیا گیا، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ تمام کمیشن کے نتائج صفر رہے ، سیکیورٹی معاملات اور مذہب کے شعبے میں ذرائع ابلاغ کی آزادی بڑی حد تک کم ہے ، پی پی ایف رپورٹ
کراچی (رپورٹ: عابد حسین) پاکستان میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ کارکنان کی حفاظت کے حوالے سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستان میں صحافیوں کو درپیش عدم تحفظ کی بھیانک تصویر پیش کی گئی ہے اور حکومت و ذرائع ابلاغ سے موجودہ صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کی حفاظت پر رپورٹ پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) نے ‘‘سزا سے بریت کے عالمی دن’’ پر جاری کی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 2001ء سے اب تک ذرائع ابلاغ سے وابستہ 47 کارکنان قتل ہوئے ، جبکہ 164 زخمی، 88 زدوکوب، 21 اغواء اور 40 گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سے وابستہ 24 افراد خطرناک ذمہ داری انجام دیتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ذرائع ابلاغ کے خلاف تشدد کے 384 معاملات میں سے صرف دو ایسے ہیں جن میں کسی کو مجرم قرار دیا گیا،پاکستانی ذرائع ابلاغ پر حملے کرنے والوں کو حاصل کھلی چھوٹ ملک میں آزاد صحافت کی راہ میں بڑی رکاوٹیں پیدا کررہی ہے ۔ پاکستان میں صحافی سرکاری اور غیر سرکاری عسکریت پسندوں، قبائلی سرداروں اور جاگیرداروں کے علاوہ جمہوریت و قانون کی حکمرانی کے دعویدار مذہبی گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بھی قتل ہوئے ، حبس بے جا میں رکھے گئے ، زدوکوب کیے گئے اور مارے پیٹے گئے ۔ رپورٹ کے مطابق ہنگاموں اور شورش کی وجہ سے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں قتل کے واقعات زیادہ ہیں۔ 2001ء سے اب تک 21 صحافی اور ابلاغی کارکن بلوچستان میں، 19 خیبر پختونخوا میں، 9 فاٹا اور 15 سندھ میں، 4 پنجاب اور 3 اسلام آباد میں مارے گئے ۔ دھمکیوں اور تشدد نے کئی صحافیوں کو خطرات کے حامل علاقوں سے ہجرت کرنے اور پیشہ چھوڑنے پر مجبور کیا یا پھر متنازع علاقوں میں رہنے والے صحافیوں نے خود پر ہی سنسر شپ لاگو کر دی۔ عدالت میں مجرم قرار دیے جانے کے دونوں واقعات سندھ میں پیش آئے ، جہاں غیر ملکی صحافی ڈینئل پرل اور نجی ٹیلی وژن کے ولی بابر کے معاملات حل ہوئے ۔ دونوں معاملات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سنجیدگی سے پیروی کی۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ادارے صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں اور اداروں و کارکنوں پر حملے کے مقدمات کی طویل عرصے تک پیروی کو یقینی بنائیں۔ قتل کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے خلاف تشدد کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ سندھ میں پیش آئے ۔ 2001ء میں اب تک کل 164 صحافی اور ابلاغی کارکن زخمی ہوئے یا زد و کوب کیے گئے ، جن میں سے 91 سندھ میں ہوئے ۔ حیران کن طور پر 70 حملوں کے ساتھ دوسرا مقام اسلام آباد کا ہے ، جس کی وجہ 2014ء میں دھرنے کے دوران سیاسی کارکنوں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے کارکنوں کے خلاف بڑی تعداد میں ہونے والے حملے تھے ۔ ذرائع ابلاغ سے وابستہ 48 افراد پنجاب میں، 23 خیبر پختونخوا میں اور 14 بلوچستان میں زخمی یا زدوکوب ہوئے ۔ ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے خلاف تشدد کے مرتکب افراد کو پکڑنے میں ہچکچاہٹ انتہائی بڑے واقعات میں بھی دکھائی دی، جیسا کہ 2014ء میں حامد میر پر قاتلانہ حملے ، 2011ء میں سلیم شہزاد اور 2006ء میں حیات اللہ خان کے قتل کے معاملات ہیں۔ ان تمام واقعات کے بعد اعلیٰ سطح کے کمیشن تشکیل دیے گئے ، لیکن نتیجہ صفر رہا۔ پی پی ایف کی رپورٹ میں کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو واقعات بڑے پیمانے پر توجہ حاصل نہیں کر پائے انہیں تو مقامی سطح پر ہی دبا دیا گیا، اس کی ایک مثال 31 دسمبر 2013ء کی شب باڈھ، لاڑکانہ میں قتل ہونے والے نجی ٹیلی وژن چینل کے رپورٹر شان ڈاہر کی ہے ۔ انہیں پشت پر گولیاں ماری گئی تھیں، جس کے بعد اسپتال پہنچایا گیا، لیکن بروقت علاج فراہم نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ وہ یکم جنوری 2014ء کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ۔ رپورٹ میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ آزاد ذرائع ابلاغ پاکستان میں جمہوریت، شفافیت اور احتساب کے فروغ کے لیے ضروری ہیں جو زبردست اقتصادی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نجی ٹیلی وژن چینلز نے معاشرے میں نئے بیانیے کو جنم دیا ہے ، جو کئی سال سے سرکاری اجارہ داری اور یکطرفہ بیان تلے دبا ہوا تھا۔ مقامی سیاست سے لے کر سماجی و ثقافتی معاملات تک کھلے اور واضح مذاکروں نے سول سوسائٹی اور جمہوری عمل کو مضبوط کرنے میں مدد دی ہے ، البتہ چند شعبے اب بھی ایسے ہیں جہاں ذرائع ابلاغ کو اپنی آزادی بڑی حد تک کم ہوتی محسوس ہوتی ہے ، ان میں سب سے نمایاں سیکیورٹی معاملات اور مذہب ہیں۔