پاکستان , بھارت میں پس پردہ کیا ہورہا ہے?
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں آج روشنی کی ایک کرن نظر آئی ہے جب پاکستان اور بھارت کی فوجی قیادت نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر مکمل فائر بندی کا فیصلہ کیا ہے
(دنیا کامران خان کے ساتھ ) پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کا ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا ہے جس میں سرحد پر صورتحال بہتر بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کے درمیان سرحد کے ساتھ رہنے والے شہریوں کومشکلات سے بچانے کے مخلصانہ اقدامات پر بھی اتفاق کیا گیا۔دونوں جانب سے 2003کے سیز فائر معاہدے پر مکمل عملدرآمد کا اعلان کیا گیا ہے لگ رہا ہے کہ پس پردہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی پیش رفت ہورہی ہے ، اطلاعات کے مطابق یکم مئی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹریک ٹو سفارتکاری کا پھر آغاز ہوا ،سابق بھارتی سیکرٹری خارجہ ویوک کاٹجو کی قیادت میں وفد اپریل میں اسلام آباد آیا تھا،پاکستانی وفد کی قیادت سابق سیکرٹری خارجہ انعام الحق اور عشرت حسین نے کی، اس ملاقات میں پاکستان اور بھارت کے دفاعی ماہرین بھی شامل تھے جنہوں نے غیر سرکاری فورم ’’نیمرانا‘‘ کے تحت بات چیت میں حصہ لیا۔اس حوالے سے پچھلے ہفتے بھارتی وزیر دفاع نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے اپریل کے بیان پر رد عمل میں کہا تھا کہ بھارت امن کی ہر خواہش کو سنجیدگی سے لے گا،یہ جنرل باجوہ کے پاسنگ آئوٹ پریڈ کاکول میں خطاب کا جواب تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تنازعات بات چیت سے پر امن طور پر طے کرنے کے لئے تیار ہے ۔اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا وہ اس رائے سے سو فیصد اتفاق کرتے ہیں کہ ڈی جی ایم اوز کے رابطے سے پہلے بہت کام ہوا ہوگا۔بھارت نے پاکستان کو تنہا کرنے کی جو پالیسی اپنائی تھی پاکستان کی وہ تنہائی ممکن نہیں رہی ۔پاکستان کے تعلقات نہ صرف چین سے مزید گہرے ہوئے ہیں بلکہ روس کے ساتھ بھی ان تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے پاکستان نے اپنا دائرہ اور وسیع کرنے کی کوشش کی ہے اور بھارت کے دبائو کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔علاوہ ازیں بھارت کے اندرونی حالات بھی بھارت کے لئے بہت دبائو کا باعث ہیں بھارت کی پالیسی ناکام ہوئی ہے اسی لئے اس نے سیز فائر کا اعلان کیا ہے ۔ انھوں نے کہا ٹریک ٹو کی خبریں ،آرمی چیف کا بیان اور اس پر بھارتی وزیر دفاع کا رد عمل اور اب ڈی جی ایم اوز کی گفتگو یہ سب چیزیں آپس میں جڑی ہیں، بھارت جانتا ہے کہ بھارت سے پاکستان کے تعلقات کا انحصار بڑی حد تک پاک فوج کی سوچ پر ہے ۔من موہن سنگھ کے زمانے میں بھی بھارت کی بڑی کوشش تھی کہ کسی طریقے سے پاک فوج سے رابطے ہوں ۔اگر پاکستان کی فوجی قیادت تیار ہو تو دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی یہ پالیسی بنا لی ہے کہ پڑوسیوں خاص طور پر بھارت سے اچھے تعلقات ہوں افغانستان سے اچھے تعلقات کا انحصار بھی بڑی حد تک بھارت سے تعلقات بہتر ہونے میں ہے یہ بھارت سمجھتا ہے کہ فوج سے تعلقات بہتر ہوں گے تو لائن آف کنٹرول پر بھی کشیدگی کم ہوگی اور دونوں ملک سیاسی طور پر بھی آگے بڑھ سکیں گے ۔بھارتی وزیر اعظم مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کی حالیہ ملاقات بھی اس کا سبب ہوسکتی ہے اس لئے کہ اس وقت چین اور روس دونوں چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہوں ۔بھارت یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہ بالکل امریکہ کے ساتھ ہی ڈیل کرے وہ اپنی آزادی بھی دکھانا چاہتا ہے ،دنیا بدل رہی ہے ،جس طرح امریکی صدر ٹرمپ نے بالکل پلٹا کھایا ہے اور شمالی کوریا کے صدر سے ملاقات کرنے والے ہیں اس لئے پاکستان اور بھارت بھی کیوں نہ یہ کوشش کریں کہ اپنے تعلقات کو بہتر کریں ۔