ٹرین واقعہ میں فوج اور ایف سی کے 18اہلکار شہید:دہشتگردی میں بھارت اور افغانستان ملوث:ترجمان پاک فوج

ٹرین واقعہ میں فوج اور ایف سی کے 18اہلکار شہید:دہشتگردی میں بھارت اور افغانستان ملوث:ترجمان پاک فوج

اسلام آباد (خصوصی نیوز رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک) ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا مشرقی پڑوسی پاکستان میں دہشت گردی کا مین سپانسر ہے ، جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد بھارتی میڈیا نے جعلی اے آئی ویڈیوز کے ذریعے دہشتگردوں کے حق میں وار فیئر کو لیڈ کیا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

حملہ آوروں کے ساتھ خود کش بمبار بھی تھے جس کی وجہ سے آپریشن میں احتیاط برتی اور ایک بھی یرغمالی شہید نہیں ہوا، اس سانحے میں شہید ہونے والوں میں 18فوجی اور ایف سی اہلکار،3ریلوے اہلکاروں کے علاوہ 5 سویلینز شامل تھے ، دہشتگرد کسی کویرغمال بنا کر نہیں لے گئے ۔انٹیلی جنس ایجنسیاں دن رات پاکستان کے شہریوں کیلئے دل و جان سے لگی ہوئی ہیں، اس کو انٹیلی جنس ناکامی کہنے سے احتیاط کرنا چاہیے ۔اسلام آباد میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ دہشت گردوں نے منظم انداز میں کارروائی کی، جعفر ایکسپریس واقعہ انتہائی دشوار گزار علاقے میں پیش آیا، ٹرین سے پہلے دہشت گردوں کی بڑی تعداد نے ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا،جہاں ایف سی کے 3 جوان شہید ہوئے ۔ دہشت گردوں نے آئی ای ڈی کی مدد سے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا اور مسافروں کو ٹرین سے اتار کر ٹولیوں میں تقسیم کیا،سوشل میڈیا پر ٹرین واقعے کی اے آئی سے جعلی ویڈیوز بنائی گئیں، بھارتی میڈیا جعلی اے آئی ویڈیوز کے ذریعے پروپیگنڈا کرتا رہا۔ دنیا کو گمراہ کرتا رہا،جعلی ویڈیوز کے ذریعے پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی،بھارتی میڈیا نے جھوٹی ویڈیوز سے ملکی تشخص خراب کرنے کی کوشش کی۔

دہشت گردوں نے 11مارچ کی رات یرغمالیوں کے ایک گروپ کو لسانی بنیاد پر چھوڑا، جس کی کچھ لاجسٹک وجوہات تھیں کیونکہ اتنے لوگوں کو قابو نہیں کیا جاسکتا، دوسرا یہ کہ انہیں خود کو انسانیت دوست ہونے کا تاثر دینا تھا۔ دہشت گردوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کو ٹرین پر چھوڑا اور ایک بڑی تعداد پہاڑوں میں اپنے ٹھکانوں کی جانب چلی گئی، جن کی نگرانی کرنے کے بعد سکیورٹی فورسز نے انہیں نشانہ بناکر ختم کیا اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔دہشت گردی کی پوری کارروائی کے دوران دہشت گردافغانستان میں اپنے ہینڈلر سے مسلسل رابطے میں تھے ، 12 مارچ کی صبح ہماری فورسز نے اسنائپرز کے ذریعے دہشتگردوں کو نشانہ بنایا تو یرغمالیوں کا ایک گروپ دہشتگردوں کے چنگل سے بھاگ نکلا، جنہیں ایف سی کے جوانوں نے ریسکیو کیا جبکہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے کچھ یرغمالی شہید بھی ہوئے ۔12 مارچ کی دوپہر سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کی ضرار کمپنی نے آپریشن کی کمان سنبھالی اور یرغمالیوں کے درمیان موجود خودکش بمباروں کو اسنائپر کی مدد سے نشانہ بنایا تو یرغمالیوں کو پھر بچ نکلنے کا موقع ملا اور دہشت گردوں کے نرغے سے نکل کر مختلف سمتوں میں بھاگ نکلے ۔

ٹرین کے باہر سے یرغمالی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تو ایس ایس جی کی ضرار کمپنی کے جوان انجن کے راستے ٹرین میں داخل ہوئے اور بوگی بہ بوگی پوری ٹرین کو دہشت گردوں سے پاک کیا اور یرغمال بنائے گئے خواتین اور بچوں کو ریسکیو کیا۔ آپریشن اس قدر مہارت سے کیا گیا کہ پوری کارروائی کے دوران کسی معصوم یرغمالی کی جان نہیں گئی، جو شہادتیں ہوئیں وہ آپریشن شروع کیے جانے سے قبل ہوئیں، دہشتگردوں نے 24 گھنٹے کے دوران کئی یرغمالیوں کو شہید کیا تاہم آپریشن کے دوران وہ چاہ کر بھی کسی کی جان نہیں لے سکے ، دوران آپریشن ضرار کمپنی کی جانب ایک اسنائپر کا فائر آیا تھا، بعدازاں مذکورہ دہشت گرد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔دہشت گردوں کے پاس غیرملکی اسلحہ اور آلات موجود تھے ، آپریشن میں بازیاب ہونے والے مسافروں کو خوراک مہیا کی گئی اور فورسز کی نگرانی میں محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا،پریس کانفرنس کے دوران آپریشن کے مختلف مراحل اور یرغمالیوں کی محفوظ مقام پر منتقلی کی وڈیو بھی دکھائی گئیں۔ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ تاریخ میں ٹرین کو یرغمال بنانے کے جتنے واقعات ہیں، یہ واقعہ آپریشن کے حوالے سے سب سے زیادہ کامیاب ترین تھا، جہاں 36 گھنٹے کے اندر انتہائی دور افتادہ مقام پر خودکش بمباروں کی موجودگی کے باوجود پاک فوج، ایئرفورس اور ایف سی نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس آپریشن کو مکمل کیا۔

یہ دہشت گردی کا ایک اور واقعہ ہے جس کے لنکس پڑوسی ملک افغانستان سے ملتے ہیں، یہ جاری عمل کا ایک حصہ ہے ، کیوں کہ یہاں جو تشکیلات آتی ہیں، افغانی اس کا حصہ ہوتے ہیں، یہاں جو خودکش بمبار آتے ہیں وہ افغانی ہوتے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے سکرین پر تصاویر دکھاتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں ہلاک خارجی بدرالدین نائب گورنر صوبہ باغدیس کا بیٹا تھا، خارجی مجیب الرحمٰن افغانستان کی آرمی میں ایک بٹالین کمانڈر تھا اور یہ پاکستان میں دہشت گردی کر رہا تھا، اسی طرح ابھی بنوں واقعہ ہوا، اس میں بھی افغان دہشت گرد ملوث تھے ، ان کے پاس سے جو ہتھیار ملے وہ بھی افغانستان سے لائے گئے تھے ، لیکن جو بلوچستان میں واقعہ ہوا ہے اور اس سے پہلے جو واقعات ہوئے ہیں، اس کا مین سپانسر مشرقی پڑوسی ہے ۔اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافی ویڈیو بیانات دکھائے ، جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ را کا ہدف اور مقصد بلوچستان میں متعدد دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا ہے ، اس وقت میرا پاکستان آنے کا مقصد بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ ملاقات کرنا ہے اور را کے 30 سے 40 کارندوں کے مکران کوسٹ کے اطراف بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ کارروائی کرنا ہے اور مقصد یہ ہے کہ را کے کارندے فیلڈ میں رہیں کہ وہ بلوچ قوم پرستوں کی مدد اور ان کی سہولت کاری کرسکیں تاکہ وہ مخصوص اہداف کو نشانہ بنا سکیں، اور ملٹری کی طرز کا تمام آپریشن کیا جاسکے کیونکہ بلوچستان کی تحریک سمندر کے ذریعے نہیں ہوتی، مقصد ہے کہ بلوچ قوم پرستوں کو محفوظ زمین فراہم ہوسکے اور سمندر کی طرف سے مکمل طور پر کوآرڈینیڈ ہو،ڈی جی آئی ایس پی آر نے سابق بھارتی آرمی چیف کا بیان چلوایا،انہوں نے ہتھیار ڈالنے والے بلوچوں کا بیان بھی دکھایا، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی جنگ نہیں ہو رہی ہے ، لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے عام معصوم بلوچوں کو مروا رہے ہیں، اس تمام سازشوں میں خاص کر بھارت کا ہاتھ ہے ۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ اس لیے جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہوا ہے ، یہ اسی پالیسی کا تسلسل ہے ، وہیں سے پش کیا گیا کہ یہ کام کرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور سلام پیش کرتے ہیں ان بہادر جوانوں کو جنہوں نے اپنی منصوبہ بندی، دلیری سے ایک انتہائی خطرناک صورتحال سے معصوم جانوں کو بچایا۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا انٹیلی جنس کے لیے بہت زیادہ معلومات چاہیے ہوتی ہے ، کیونکہ بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے ، اگر آپ بلوچستان کے تناظر میں دیکھیں تو یہ صوبہ پاکستان کا 44 فیصد پر مشتمل ہے جبکہ اس کا 50 فیصد حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے اور 20 فیصد صحراؤ ں پر مشتمل ہے ، یہ بہت زیادہ چیلنجنگ انٹیلی جنس کا ماحول ہے ، اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں رات دن کام کر رہی ہیں تاکہ لیڈز کا پتا چلا سکیں، اس سے پہلے کہ کوئی حادثہ ہو، اس کو نیوٹرلائز کریں، لیکن انٹیلی جنس میں جہاں آپ کو ناکامی نظر آتی ہے ، جس کی آپ نشاندہی کرتے ہیں، جس طرح آپ نے کہا کہ یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے ، جس سے میں اتفاق نہیں کرتا، اس کے پیچھے انٹیلی جنس کی کامیابی کی ہزاروں اسٹوریاں بھی ہوتی ہیں، جو آپ نہیں جانتے کیونکہ واقعہ نہیں ہوتا۔

انٹیلی جنس ایجنسیاں دن رات پاکستان کے شہریوں کے لیے دل و جان سے لگی ہوئی ہیں، اس کو انٹیلی جنس ناکامی کہنے سے احتیاط کرنا چاہیے ۔یہ جو دہشتگردی ہے ، اس کے خلاف افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لڑتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف پوری قوم نے لڑنا ہوتا ہے ، اگر آپ احاطہ کریں تو 2014 کے نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے اتفاق رائے ہوا تھا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے بیٹھ کر فیصلہ کیا تھا۔ اسی طرح پچھلی حکومت نے نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان دیا تھا، جس میں 14 نکات تھے ، اورو ہی 14 نکات وژن عزم استحکام میں شامل ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز متفق ہیں کہ یہ 14 کام کریں گے تو دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔14 پوائنٹ میں ایک پوائنٹ ہے ، جس کا تعلق کائنیٹک کے ساتھ ہے کہ کسی ملٹری / مسلح گروپ کو آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اگلا پوائنٹ ہے کہ دہشت گردی کے پھیلاؤ کو میڈیا (سوشل، پرنٹ، الیکٹرانک) کے ذریعے روکا جائے ، اسی طرح مذہبی فرقہ ورانہ دہشتگردی کے حوالے سے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے ، جبکہ یہ بھی پوائنٹ ہے کہ ٹیرر فنانسنگ کو روکا جائے گا، غیر قانونی اسپیکٹرم پر قابو پایا جائے گا۔اگلا پوائنٹ ہے کہ اسی طرح انسداد دہشت گردی کے کیسز کا عدالتوں میں مستعدی سے کام کیا جائے گا، محکمہ انسداد دہشت گردی کی صلاحیت کو بڑھایا جائے گا، مدارس کی ریگولیشن اور رجسٹریشن کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ 2024 میں قانون نافذ کرنے والے ادراوں نے 59 ہزار 775 انٹیلی جنس بیسڈ چھوٹے بڑے آپریشن کیے ، 2025 میں مارچ کے وسط تک 11 ہزار 654 انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے ، اس کا مطلب ہے کہ روزانہ اوسطاً 180 آپریشن کر رہے ہیں۔1250 کے قریب دہشتگرد 2024 اور 2025 میں ہلاک کیے جا چکے ہیں، 563 جوان پاکستان کے عوام کی حفاظت کی راہ میں اپنی جان اللہ کو سپرد کر چکے ہیں، لہٰذا اس پر تو ہر وقت، ہر لمحہ کام ہو رہا ہے ، اس کے لیے جانیں دی جا رہی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں ہر قسم کی دہشت گردی کو آہستہ آہستہ اسپیس مل رہی ہے ، افغانستان میں فتنہ خوارج کے مراکز ہیں، ان کی وہاں پر قیادت موجود ہے ، وہاں پر ان کی تربیت ہو رہی ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب افغانستان سے اتحادی افواج کا انخلا ہوا ہے ، تو نائٹ وژن ڈیوائسز بڑی تعداد میں وہاں پر موجود ہیں، جو ان دہشت گرد تنظیموں کو دستیاب ہیں، اسی طرح اگلی وجہ یہ ہے کہ ہمیں لازمی تسلیم کرنا ہوگا کہ پہلی بار ریاست پاکستان اس غیر قانونی اسپیکٹرم کے خلاف جہاد کررہی ہے ، جس میں نارکو، اسمگلنگ اور نان کسٹم پیڈ وہیکلز شامل ہیں، جس میں ایرانی پٹرول اور ڈیزل کا بہت بڑا مافیا شامل ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سینکڑوں ارب ڈالر کا مافیا ہے ، وہ بھی دہشتگردی کو سپورٹ کرتے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے جعفر ایکسپریس پر حملے میں ہونے والے جانی نقصان سے متعلق سوال پربتایا کہ واقعے میں مجموعی طور پر 26 شہادتیں ہوئیں، 354 یرغمالیوں کی زندہ بازیاب کروایا گیا ہے جن میں 37 زخمی بھی شامل ہیں، انہوں نے بتایا کہ 18 شہدا کا تعلق آرمی اور ایف سی سے ہے ، 3 شہدا ریلوے اور دیگر محکموں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ 5 عام شہری تھے ۔انہوں نے بتایا کہ اس پوری کارروائی کے دوران ایف سی کی 5 آپریشنل شہادتیں بھی ہوئی ہیں جن میں ایف سی کے 3 جوانوں کو دہشت گردوں نے ٹرین کو نشانہ بنانے سے قبل چوکی پر حملہ کرکے شہید کیا، ایف سی کا ایک جوان 12 مارچ کی صبح دہشتگردوں کو نشانہ بنانے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں شہید ہوا، اس جوان کی فائرنگ کے نتیجے میں یرغمالیوں کو دہشتگردوں کے شکنجے سے بھاگ نکلنے کا موقع ملا، ٹرین میں ڈیوٹی پر مامور ایف سی کے جوان کی بھی حملے کے دوران شہادت ہوئی ہے ۔

وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس موقع پر کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر سفر کے لئے 428 ٹکٹ جاری ہوئے تاہم 100 فیصد ٹکٹ ہولڈر نے سفر نہیں کیا اسی لئے مجموعی تعداد کے بارے میں باتیں ہورہی ہیں۔ کچھ لوگ ٹریول نہیں کرتے اور کچھ لوگ پہلے اتر جاتے ہیں یا کسی کا ٹرین پر سفر اگلے سٹاپ سے شروع ہوتا ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ جب بھاگے ہوں تو بھٹک گئے ہوں اور دوبارہ دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئے ہوں ، کل بھی ایف سی چیک پوسٹ پر دو لوگ آئے اور بتایا کہ بھاگنے کے بعد راستہ بھول گئے تھے ۔بدامنی پھیلانے والے عناصر سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، علیحدگی پسندوں سے دہشت گردوں جیسا برتاؤ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، دہشت گردوں نے ان تمام روایات کو پامال کردیا ہے ، اس لیے میں کہتا ہوں انہیں بلوچ نہ کہا جائے ، افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور بہت پہلے سے ہو رہی ہے ، انہوں نے دوحہ میں دنیا کے ساتھ معاہدہ کیا کہ ان کی سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، یہ دنیا کو بھی سوچنا پڑے گا کہ یہ خطرہ صرف پاکستان کے لیے نہیں ہے ۔

سکیورٹی فورسز کو کامیاب کارروائی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں، پاک فوج کا یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانا قابل تعریف ہے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی مذمت کرنے پر امریکا، چین، روس، برطانیہ، ایران، ترکیہ ،اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین، یورپ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور یورپی سفیر کا شکریہ ادا کیا۔ سرفراز بگٹی نے کہا بلوچ روایتوں کے امین ہیں مگر دہشت گردوں نے ان تمام روایات کو پامال کردیا ہے ، اس لیے میں کہتاں ہوں کہ انہیں بلوچ نہ کہا جائے ۔انہوں نے کہا کہ جس طرح اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے خوارج کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اسی طرح بلوچیت کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا بلوچیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اس لڑائی کا بلوچیت اور حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ خالصتاً شیطانی قوتیں اور دہشتگرد ہیں، جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرکے اسے توڑنا چاہتے ہیں۔سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور بہت پہلے سے ہو رہی ہے ، انہوں نے دوحہ میں دنیا کے ساتھ معاہدہ کیا کہ ان کی سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، یہ دنیا کو بھی سوچنا پڑے گا کہ یہ خطرہ صرف پاکستان کے لیے نہیں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ بدامنی پھیلانے والے صرف دہشتگرد ہیں، انہوں نے بلوچوں کی روایات کو پامال کیا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں