ن لیگ حکومت معیشت کوسنبھالادینے میں کامیاب رہی
پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت میں سیاسی بے یقینی دھرنوں اور حکمران خاندان سمیت دیگر سیاسی شخصیات کے احتساب کے سبب ملکی معیشت سیاسی و معاشی دھچکوں سے مسلسل دوچار رہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کے باوجود حکومت کی معاشی کارکردگی
اسلام آباد (ساجد چوہدری) اس قدر بہتر نہ ہوسکی جس قدر اسے ہونا چاہیے تھا تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن)ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے میں کامیاب ہو گئی، پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے پانچ سالہ دور میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 99روپے 66پیسے فی امریکی ڈالر سے گر کر 115.6روپے تک پہنچ گئی ہے جس سے قومی خزانے پر واجب الادا قرضوں کے بوجھ میں 350ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا غریب عوام کی قوت خرید میں 15.69فیصد کمی ہوئی اور ان پر اسی قدر مہنگائی کا بوجھ بڑھا جبکہ پاکستان کے کمرشل بینکوں میں 6 ارب 32 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی کرنسی اکائونٹس رکھنے والوں کی دولت میں بغیر کوئی محنت کئے 105ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ، پاکستان مسلم لیگ حکومت کی معاشی کارکردگی کے کے بارے میں وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی گئی تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ٹیکس وصولی مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) کے 9.5فیصد سے بڑھ کر10.6فیصد تک پہنچ سکی ہے اور ٹیکس وصولی کو مجموعی قومی پیداوار کے 15فیصد تک لیجانے کا ہدف حاصل نہ ہوسکا ہے ٹیکس وصولی2124ارب روپے سے بڑھ کر4000ارب روپے تک لیجائی جاچکی ہے ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ14318ارب روپے سے بڑھکر21407ارب روپے تک پہنچ گیا ہے اور پاکستان مسلم لیگ کی حکومت نے ملک پر7089ارب روپے کے قرض کا اضافہ کیا ہے اور ملک پر غیر ملکی قرض کا حجم 21.4رب ڈالر سے کم ہوکر 20.5ارب ڈالر تک آ گیا ہے ،پاکستان مسلم لیگ کے پانچ سالہ دور2013-2018 کے دوران حکومت میں ملک کی اوسط سالانہ معاشی ترقی کی شرح جی ڈی پی3.68فیصد سے بڑھ کر 5.79فیصد تک پہنچ گئی اور ملکی معیشت کا حجم امریکی ڈالر میں231ارب ڈالر سے بڑھ کر 313ارب ڈالر تک پہنچ گیا ،پاکستانی روپیہ مالیت میں ملکی معیشت کا حجم 22385ارب روپے سے بڑھ کر34396ارب روپے تک جا پہنچا ہے ملک کی صنعتی ترقی کی شرح کو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے صنعتی پیداوار میں اضافہ کی شرح 0.75فیصد تک گر چکی تھی اب بڑھ کر5.80فیصد تک پہنچ گئی ہے ، بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار کی اوسط سالانہ شرح3.35فیصد سے بڑھ کر5.89فیصد تک جا پہنچی ہے ملک کے تعمیراتی سیکٹر کی سرگرمیاں جو کہ گر کر1.08فیصد تک پہنچ گئی تھیں اب بڑھ کر9.13فیصد کی بلند ترین سطح پر آ چکی ہیں ملک کے خدمات کے شعبے کی ترقی کی شرح 5.13فیصد سے بڑھ کر6.43فیصد تک جا پہنچی ہے ملک کے زرعی شعبے کو قرض کی فراہمی سالانہ 259.08فیصد سے بڑھ کر سالانہ 736.7ارب روپے تک جا پہنچی ہے گندم کی پیداوار 2کروڑ 42لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھ کر 2کروڑ54لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ گئی ہے ،چاول کی پیداوار 55لاکھ 40ہزار ٹن سے بڑھ کر74لاکھ40ہزار میٹرک ٹن تک جا پہنچی ہے مکئی کی فصل کی پیداوار 42لاکھ20ہزار میٹرک ٹن سے بڑھ کر57لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ہے کاٹن کی پیداوار 1کروڑ30لاکھ گانٹھ سے کم ہوکر1کروڑ19لاکھ40ہزار تک آ گئی ہے گنے کی پیداوار 6کروڑ37لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھ کر8کروڑ11لاکھ ٹن تک آ گئی ہے پاکستان میں مہنگائی کی شرح کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر7.75فیصد سے کم ہوکر3.77فیصد یا نصف حد تک کم ہو گئی ہے ملکی برآمدات جو ابتداء میں20.55ارب ڈالر تھیں وسط میں25ارب ڈالر تک بڑھ کر سال2018میں واپس20.60ارب ڈالر تک آ گئی ہیں ملکی درآمدات33.4ارب ڈالر سے بڑھ کر45.6ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں ، سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات 11.57ارب ڈالر سے بڑھ کر 16.26ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو 86کروڑ ڈالر تک گر چکی تھی ایک بار پھر بحال ہوکر سالانہ2.24ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر11.62ارب ڈالر سے بڑھ کر16.23ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں سٹیٹ بینک کے پاس دستیاب زرمبادلہ کے ذخائر 6.56ارب ڈالر سے بڑھ کر9.91ارب ڈالر تک بڑھ گئے ہیں کمرشل بینکوں کے پاس نجی فارن کرنسی اکائونٹس کی مالیت5.06ارب ڈالر سے بڑھ کر6.32ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں ،فی کس سالانہ آمدن1333روپے سے بڑھ کر 1640 روپے تک پہنچ گئی ہے پبلک انویسٹمنٹ787ارب روپے سالانہ سے بڑھ کر 1729ارب روپے تک جا پہنچی ہے ،پرائیویٹ انویسٹمنٹ 2202ارب روپے سے بڑھ کر 3771ارب روپے تک جا پہنچی ہے ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے خاندانوں میں سالانہ 46.5اب روپے سے بڑھاکر121ارب روپے سالانہ تقسیم شروع کر دی گئی ہے اور انہیں سالانہ12000روپے کے بجائے اب20000 روپے فی کس فراہم کئے جا رہے ہیں مستفید ہونے والے خاندانوں کی تعداد37 لاکھ50 ہزار سے بڑھ کر56لاکھ30ہزار تک پہنچ گئی ہے ، پاکستان سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس 19,916 سے بڑھ کر 42536 تک پہنچ گئی ہے ،سٹاک مارکیٹ کیپیٹلائزیشن51.3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 76.4 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے ، ملک میں رجسٹر ہونے والی کمپنیوں کی تعداد سالانہ 2876 سے بڑھ کر سالانہ 8349تک پہنچ گئی ہے پاکستان میں صنعتی قرضوں پر شرح سود9فیصد سے کم کر کے 6.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔