غیر قانونی دولت واپس لانا حکومت کا اصل امتحان

 غیر قانونی دولت واپس لانا حکومت کا اصل امتحان

ٹاسک فورس کے اقدامات کو سنجیدہ ہونا چاہئے نہ کہ رد عمل کا انداز سامنے آئے اب کسی ایمنسٹی سکیم کے بجائے معیشت کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں

(تجزیہ :سلمان غنی) نئی حکومت کی جانب سے اقتصادی استحکام کیلئے غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیے جانے والے سرمائے کی واپسی کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے اور حکومت کا اصل امتحان غیر قانونی دولت واپس لانا ہے ۔ اس ضمن میں ایک ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے اب تک کی جانے والی مشاورت کے بعد اعلان کیا گیا ہے کہ تقریباً 100 ایسے افراد جن کی بیرون ملک جائیدادیں ، بینک اکاؤنٹس ہیں اور بڑے پیمانے پر غیر قانونی سرمایہ کاری میں بھی ملوث ہیں ان کے سرمائے کی واپسی کیلئے ایسے عناصر کے گرد قانونی شکنجہ کسا جا رہا ہے ، کیا اس ذریعہ سے بیرونی ملک پڑا کالا دھن حکومت واپس لانے میں کامیاب ہوگی؟ کیا بیرون ملک سے لائے جانے والے سرمایہ سے معیشت کو سنبھالا مل سکے گا؟ ان قانونی اقدامات کے نتیجہ میں ملک کے اندر سرمایہ کاروں میں بے چینی اور خوف و ہراس تو نہیں پھیلے گا؟ مؤثر احتسابی عمل میں نئی حکومت کو متعلقہ اداروں کا تعاون کس حد تک حاصل ہوگا؟ جہاں تک کالے دھن کی وطن واپسی کا سوال ہے تو اس میں حکومت نہایت سنجیدہ اور سرگرم دکھائی دے رہی ہے اور خود وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے بریفنگز لے چکے ہیں، ہدایات دے چکے ہیں۔ عملاً اس کام کیلئے ٹاسک فورس بھی بن چکی ہے اور اس لوٹی ہوئی دولت کی وطن واپسی ایک آسان کام نہیں ہے ۔ کیونکہ اس سے قبل شاہد خاقان عباسی کے دور میں ایک ایمنسٹی سکیم اس کام کیلئے شروع کی گئی تھی مگر اس ایمنسٹی سکیم کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے ۔موجودہ حکومت لوٹی ہوئی قومی دولت اور غیر قانونی طریقوں سے باہر بھیجی جانیوالی دولت کیلئے جزا اور سزا کے تصور پر سختی سے عمل کرے تو حالات میں کافی بہتری آ سکتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے قائم کی گئی نئی ٹاسک فورس کے حوالے سے اب تک جو صورتحال سمجھ آ رہی ہے اس میں ’’وسل بلور‘‘ کی بہت اہمیت ہو گی اور اس کا نام خفیہ رکھ کر ریکوری کی رقم سے بھی ایک بھاری رقم دی جائیگی تو اس سے واضح طور پر مالیاتی اہداف تک پہنچنا لازمی بن جائیگا۔ مگر اس حکومت کی مختلف معاملات پر بننے والی ٹاسک فورسز کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو رہا ہے کہ بظاہر کوئی لائن آف ایکشن دکھائی نہیں دے رہا اور حکومت ہر معاملہ پر ابھی رد عمل کی نفسیات پر کار بند رہ کر کام کر رہی ہے ۔ٹاسک فورس کے اقدامات کو سنجیدہ ہونا چاہیے نہ کہ ردعمل کا انداز سامنے آئے ، اس معاملہ پر بھی کچھ حلقے خدشات کا شکار ہیں کہ لوٹی ہوئی دولت کی وطن واپسی میں حکومت شاید بلا امتیاز کارروائی کرنے میں جزوی طور پر ناکام ہے اور اس میں سے سیاسی انتقام کی بو محسوس کی جا رہی ہے ۔ اس حوالے سے حکومت کی اب تک کی پرفارمنس بتا رہی ہے کہ بظاہر ان کی سمت کلیئر ہے جوش و جذبہ بھی موجود ہے ، حکومت کے پاس اس طرح کے اقدامات کیلئے آخری موقع ہے کہ وہ انتہائی خلوص سے کام لے اور بلا امتیاز ایسے قومی مجرموں سے نمٹے ، خواہ ان کا ملک کے طاقتور اداروں سے وابستگی کا پس منظر ہو، یا ان کی اپنی جماعت کے سرمایہ کاروں کا نام ہو یا کسی مخالف سیاسی صف میں شامل کوئی سیاستدان یا سرمایہ کار ہو۔ اس صورتحال میں ٹاسک فورس بنانے سے دیر پا اور مستقل حل نہیں نکلے گا۔ اس کیلئے موجودہ حکومت کو منتخب پارلیمنٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا ہوگا اور اس قومی مقصد کیلئے تمام جماعتوں سے حمایت اور مشاورت طلب کر کے کوئی مؤثر قانون سازی کرنی ہوگی۔ اب محض ایمنسٹی سکیم شروع کرنے کی مجرمانہ پالیسی یا ایس آر اوز کے ذریعے ملک کے مالیاتی نظام کو سہارا دینے کے بجائے کوئی ٹھوس اور قابل عمل اقدامات اٹھانے ہونگے ۔ اگر حکومت نے کوئی جامع منصوبہ بندی کے بغیر اس مشکل اور کڑے ترین کام میں ہاتھ ڈالا تو ملک میں سرمایہ کاروں اور سرمایہ کاری کے عمل میں تشویش اور خوف کی لہر دوڑ جائے گی۔ آج کے اس زمانے میں لبرل مارکیٹ مکمل طور پر آزادی اور سازگار حالات کا تقاضا کرتی ہے تو اس میں یکطرفہ اور پاپولر اقدامات کے ذریعے سرمایہ کاری کے عمل پر غیر یقینی کے بادل مزید گہرے ہونے کا امکان بھی ہے ۔ پاکستان جیسا ملک جس کی معیشت ایک بیمار معاشی صورتحال کا شکار ہے ۔ اس میں اگر ٹھوس حکمتِ عملی اور قانون سازی کے بغیر کوئی مالیاتی قدم اٹھایا گیا تو پھر ملک میں سرمایہ واپس آنے کے بجائے ملک سے غیر قانونی طریقوں سے مزید باہر بھی جا سکتا ہے ۔ مارکیٹ لبرٹی کے اس زمانے میں اگر وزیراعظم عمران سوشلسٹ اور کنٹرولڈ اکانومی کا تصور عملاً نافذ کرینگے جس کا وہ ایک بار عندیہ بھی دے چکے ہیں، تو یہ حقیقت اب ذہن میں رکھنی ہو گی کہ مارکیٹ اور سرمایہ آج کی اس گلوبلائزیشن والی دنیا میں اپنا راستہ بنانا جانتا ہے ۔ حکومت کا اصل امتحان یہی ہے کہ غیر قانونی دولت بھی باہر سے واپس لانی ہے ۔ معیشت کو ملک کے اندر سازگار ماحول بھی دینا ہے اور ملک میں سرمایہ کے میدان میں خوف اور طاقت کے ہتھکنڈے کے بجائے اعتماد اور پر کشش ماحول کے ذریعے پوری قوم کو باور کرانا ہے کہ اپنا سرمایہ ملک میں واپس لایا جائے تا کہ ملک کی معیشت اس قابل بن جائے کہ پوری قوم ذلت و رسوائی سے نکل کر اپنا سر فخر سے بلند کر سکے ۔ تجزیہ سلمان غنی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں