کرپشن : چین جیسی سزاؤں پر غور
پاکستان اور چین کے درمیان کرپشن کے تدارک کیلئے ایک یادداشت پر دستخط ہونے کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان سی پیک کی شفافیت پر مل جل کر کام کرنے پر اتفاق ظاہر کرتا ہے
(سلمان غنی) پاکستان اور چین کے درمیان کرپشن کے تدارک کیلئے ایک یادداشت پر دستخط ہونے کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان سی پیک کی شفافیت پر مل جل کر کام کرنے پر اتفاق ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک سمجھتے ہیں کہ سی پیک کے منصوبہ پر اس کی اصل سپرٹ کے مطابق عمل درآمد کیلئے ضروری ہے کہ اس میں شفافیت ہو اور شفافیت کی بنیاد پر قائم ہونے والا منصوبہ ہی مطلوبہ نتائج کا حامل ہونے کے ساتھ اپنے اصل مقاصد سے ہم آہنگ ہوگا۔ پاک چین کے درمیان کرپشن کے تدارک کے لئے یادداشت کا انکشاف خود چیئر مین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا جس میں بتایا کہ جدید ترین ڈیجیٹل فرانزک سائنس لیبارٹری بھی تیار کی گئی ہے جس میں ڈیجیٹل فرانزک اور فنگر پرنٹ جائزہ کی سہولیات بھی موجود ہیں۔ نیب کی جانب سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اقدامات کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ نیب اپنے حقیقی مقاصد کے حوالے سے یکسوئی اور سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے ملک سے کرپشن ، لوٹ مار، بدعنوانیوں ، بے ضابطگیوں کے خاتمہ کے لئے سرگرم عمل ہے ۔ جہاں تک چین کے ساتھ کرپشن کے تدارک کے لئے یادداشت اور خصوصاً سی پیک کی شفافیت پر مل جل کر چلنے کا تعلق ہے تو حقیقت یہی ہے کہ یہ منصوبہ جہاں چین کے ترقی کے عمل کو دنیا تک وسیع تر کرنے اور خود پاکستان کے اندر ترقی و خوشحالی کے حوالے سے بنیادی حیثیت رکھتا ہے وہاں ایسی شکایات اور تحفظات بھی سامنے آ رہے تھے کہ چین اور پاکستان کے درمیان مختلف منصوبوں میں کچھ بے ضابطگیاں بھی پائی جاتی ہیں جو منصوبہ کی سپرٹ کے خلاف ہیں، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ان پر اس طرح سے آواز بھی اٹھائی گئی لیکن عمران خان کی حکومت کے اس حوالے سے تحفظات ہیں ۔ پہلے پہل وزیراعظم کے اقتصادی مشیر عبدالرزاق داؤد نے منصوبہ پر نظر ثانی کی بات کی اور پھر حالیہ دورہ بلوچستان کے دوران خود وزیراعظم عمران خان نے جہاں سی پیک کے تحت بلوچستان کی ترقی پر زور دیا وہاں انہوں نے بھی یہ کہا کہ اس منصوبہ پر نظر ثانی کریں گے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی پیک کے تحت ہونے والے معاہدے اور معاہدے کے تحت شروع ہونے والے پراجیکٹس کے حوالے سے حکومت کی کچھ شکایات ہیں اور ان بے ضابطگیوں کی نشاندہی ماضی میں بھی کی جاتی رہی لیکن اس وقت ان شکایات کے ازالہ کیلئے مؤثر اقدامات نہ ہوئے ۔ لہٰذا یہی وجہ ہے کہ اب سی پیک کے تناظر میں پاکستان اور چین کے درمیان کرپشن کے سدباب کیلئے یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں اور اس یادداشت میں سی پیک کے منصوبے زیر غور آئیں گے اور اگر ان منصوبوں میں واقعتاً بدعنوانیوں ، بے ضابطگیوں اور کک بیکس کی شکایات ہیں تو ان کا ازالہ ہونا چاہئے ۔ کیونکہ پاکستان میں سی پیک کے منصوبہ کو ایک قومی منصوبہ کا درجہ حاصل ہے ، اور اس کی سکیورٹی کی ذمہ داری پاک فوج نے لے رکھی ہے اور پاکستان اور چین دونوں کے مذکورہ منصوبہ کے حوالے سے ایک سے جذبات ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری تھا کہ ان منصوبوں میں کسی قسم کی شکایات نہیں ہونی چاہئیں تھیں ۔ کرپشن اور لوٹ مار کے سدباب کے حوالے سے خود چین کے اقدامات بھی پاکستان کیلئے مشعل راہ ہیں کیونکہ ترقی اور خوشحالی کے عمل میں اچھے نتائج تبھی ملتے ہیں جب پراجیکٹس میں شفافیت قائم ہو اور چین نے گزشتہ سالوں میں کرپشن اور لوٹ مار کی شکایات پر اس کے ذمہ داران جن میں وزراء بھی شامل تھے انہیں پھانسیوں کی سزا دی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ قومی ترقی کے عمل میں کرپشن کے مرتکب عناصر سے کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہئے اور غالباً چین کے یادداشت پر دستخط یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان بھی کرپشن اور لوٹ مار کی جڑیں کاٹنے کیلئے اس طرح کے ا قدامات پر گامزن ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے پہلے اس یادداشت پر دستخط اور سی پیک کے منصوبوں میں شکایت کے اقدامات کو اہم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ملکی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ماضی میں پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار میں اضافہ اس لئے ہوا کہ یہاں بڑی بڑی اہم پوزیشنز پر کام کرنے والے اس کے مرتکب ہوتے رہے اور ان کے گرد قانون کا شکنجہ کسنے کے بجائے انہیں ریلیف ملتا رہا، ان کیلئے این آر او ہوتے رہے ۔ لہٰذا پاکستان کی معیشت تو ڈانواں ڈول ہوتی رہی مگر یہاں لوگ امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ قانون کی پکڑ میں آئیں گے ۔ لہٰذا اب جب کرپشن نے اپنی انتہاؤں کو چھوا تو احتساب کا عمل حکومتوں کے بجائے اداروں کی تحریک پر شروع ہوا اور اب اٹھائے جانے والے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں کوئی بدعنوانی اور بے ضابطگی کے کسی عمل میں فریق بننے کے حوالے سے سو بار سوچے گا لیکن اس سارے عمل کے ساتھ اس امر کو یقینی بنانا لازم ہے کہ قانون کی حاکمیت کے لئے شکنجہ ان کے گرد ہی کسا جانا چاہئے جو اس کے مرتکب ہوتے ہیں نہ کہ کسی سیاسی انتقام کا حصہ بنتے ہوئے اقدامات ہوں کیونکہ سیاسی انتقام کی بناء پر احتسابی عمل نہ تو کارگر ہو سکے گا اور نہ ہی نتیجہ خیز، لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ چین کے ساتھ یادداشت پر دستخطوں کے ساتھ سی پیک کے منصوبوں میں بھی شفافیت نظر آنی چاہئے اور قومی تعمیر و ترقی کے لئے اٹھائے جانے والے دیگر اقدامات میں بھی شفافیت قائم رہنی چاہئے ۔ اس سے پاکستان کا وقار بھی بلند ہوگا۔ ملک میں گورننس کا خواب بھی حقیقت بنے گا۔ ادارے بھی مضبوط ہوں گے اور ملک میں میرٹ کی حاکمیت بھی قائم ہو سکے گی اور پاکستان جن مقاصد کے تحت وجود میں آیا ہے ان کی تکمیل میں بھی مدد ملے گی اور خاص طور پر دیانتداری سے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ ترقی کے مراحل طے کر سکیں گے ۔