الیکٹرک رکشا کا باقاعدہ پیداواری عمل شروع نہ ہوسکا

الیکٹرک رکشا کا باقاعدہ پیداواری عمل شروع نہ ہوسکا

کابینہ نے چار ماہ قبل پالیسی منظور کی مگر روایتی آٹو میکرز کے دباؤ پر حتمی شکل نہ دی جاسکی پالیسی کے تحت 5 سال میں 5 لاکھ موٹرسائیکلیں و رکشے ،1 لاکھ گاڑیاں سسٹم میں آنے تھے 2030 تک ایک تہائی گاڑیاں بجلی سے چلانا چاہتے ہیں ، اس میں سبھی کا فائدہ ، مشیر ماحولیات

اسلام آباد (رائٹرز)پاکستان کا پہلا الیکٹرک رکشا متعارف کرانے والا ادارہ حکومتی پالیسی نہ ہونے کے باعث باقاعدہ پیداواری عمل شروع نہ کر سکا۔ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ نے چار ماہ قبل نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری دی، جس میں الیکٹرک گاڑیوں کے مینوفیکچررز ، امپورٹرز اور خریداروں کو ٹیکس سے استثنیٰ سمیت دیگر مراعات کی پیشکش کی گئی ۔اس پالیسی کے تحت اگلے پانچ سال کے دوران پانچ لاکھ الیکٹرک موٹرسائیکلیں و رکشے اور ایک لاکھ الیکٹرک گاڑیاں، بسیں اور ٹرک ٹرانسپورٹ سسٹم میں داخل کئے جانا تھے ۔ مگر روایتی آٹو میکرز کے دباؤ کے باعث حکومت نے اس پالیسی کو حتمی شکل نہ دی، جس پر ماحول دوست گاڑیوں کے تیار کنندگان کو تشویش رہی کہ ان کی مہنگی گاڑی مارکیٹ میں جگہ نہیں بنا سکے گی۔ نجی آٹو کمپنی کے مارکیٹنگ منیجر نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ الیکٹرک رکشا چلانے اور اس کی دیکھ بھال کے اخراجات نسبتاً بہت کم ہیں۔ ایک مرتبہ چارج ہونے کے بعد یہ رکشا 170 کلو میٹر کا سفر کر سکتا ہے اور کسی قسم کا دھواں خارج نہیں کرتا۔ بڑے پیمانے پر پیداوار کیلئے ہمیں حکومت کی سپورٹ کی ضرورت ہے ۔ مشیر ماحولیات ملک امین اسلم نے بتایا کہ 2030 تک حکومت ایک تہائی گاڑیوں کو الیکٹریکل توانائی سے چلانا چاہتی ہے ، اس میں سبھی کا فائدہ ہے کیونکہ اس سے ماحول میں دھوئیں کا اخراج تقریباً دو تہائی کم جبکہ گاڑی کو چلانے کی اخراجات 60 فیصد تک کم ہو جائیں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں