آپریشن ردالفساد کے 4 سال مکمل ٹیررازم سے ٹورازم کا سفر انتہائی کٹھن رہا عوام ساتھ کھڑے ہوں تو فوج کچھ بھی کرسکتی ہے ، پاکستان مخالف بیانیے کو شکست دی ، فوجی ترجمان

آپریشن ردالفساد کے 4 سال مکمل ٹیررازم سے ٹورازم کا سفر انتہائی کٹھن رہا عوام ساتھ کھڑے ہوں تو فوج کچھ بھی کرسکتی ہے ، پاکستان مخالف بیانیے کو شکست دی  ، فوجی ترجمان

ملک میں 3 لاکھ 75 ہزار سے زائد کارروائیاں ، 353 دہشتگرد جہنم واصل ،سینکڑوں گرفتار ،1200سے زائدشدت پسند ہتھیار ڈال چکے ، دہشتگردی کا شکارعلاقوں میں اب اقتصادی کام ہورہے ، مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ، پاکستان کا امن افغانستان سے جڑا ،ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی سے متعلق قیاس آرائیاں بے بنیاد ،میجر جنرل بابر افتخار کی میڈیا کو بریفنگ

راولپنڈی (خصوصی نیوز رپورٹر،اے پی پی،مانیٹرنگ ڈیسک)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آپریشن ردالفساد کو 4 سال مکمل ہو گئے ، پاکستان مخالف بیانیے کو شکست دی ، ٹیر ر ازم سے ٹور ازم کا سفر انتہائی کٹھن رہا ،عوام کی سپورٹ نہ ہوتی تو یہ جنگ نہیں لڑی جاسکتی تھی ،عوام ساتھ کھڑے ہو ں تو فوج کچھ بھی کر سکتی ہے ، آپریشن ردالفساد کے تحت ملک بھر میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر 3 لاکھ 75 ہزار سے زائد کارروائیاں کی گئیں جن میں 353 دہشتگرد جہنم واصل اور سینکڑوں گرفتار ہوئے ،خفیہ ایجنسیوں نے انتھک محنت اور قربانیوں سے کئی بڑے بڑے دہشت گرد نیٹ ورک کا خاتمہ کیا، ان 4 برسوں میں 5 ہزار سے زائد تھریٹ جاری کی گئیں، پاک افعان سرحدپر 84فیصد اورپاک ایران سرحد پر 43 فیصد باڑ نصب کر لی گئی ہے ، پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہے ، پوری دنیا افغان امن کیلئے پاکستان کے کردار کو سراہتی ہے ، پاکستان کے ڈوزیئر کو عالمی برادری نے سراہا ہے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی سے متعلق قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ وہ پیر کو آئی ایس پی آر میں میڈیا کو آپریشن ردالفساد اور ملک کی مجموعی سکیورٹی سے متعلق امور پر یفنگ دے رہے تھے ۔ میجر جنرل بابر افتخارنے بتایا آپریشن ردالفساد کے 4 سال مکمل ہوگئے ہیں،22 فروری 2017کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت اور سربراہی میں آپریشن ردالفسار کا آغاز کیا گیا، اس کی بنیادی اہمیت جو اسے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ آپریشن کسی مخصوص علاقے پر مبنی نہیں تھا بلکہ اس کا دائرہ کار پورے ملک پر محیط تھا۔ اس آپریشن کا سٹریٹجک مقصد ایک پرامن، مستحکم پاکستان تھا اور ہے جس میں عوام کا ریاست پر اعتماد بحال ہو اور دہشت گردوں ، شرپسند عناصر کی آزادی کو سلب کرکے انہیں مکمل طور پر غیر موثر کردیا جائے ۔ اسی مناسبت سے ہر پاکستانی ناصرف اس آپریشن کا حصہ ہے بلکہ پوری قوم کی سوچ کے تحت ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ہے ۔انہوں نے کہا یہ آپریشن دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا جب دہشت گردوں نے قبائلی اضلاع میں اپنے انفراسٹرکچر کی تباہی اور مختلف آپریشن میں بھاری تباہی اٹھانے کے بعد پاکستان کے طول و عرض میں پناہ لینے کی کوشش کی، دہشت گرد ان کے سہولت کار شہروں، قصبوں، دیہات، سکولوں، مدارس، عبادت گاہوں، کاروباری مراکز حتیٰ کہ بچوں اور خواتین کو نشانہ بنا کر زندگی کو مفلوج کرنے کی ناکام کوششوں میں بھی مصروف تھے ۔انہوں نے کہا ایسے میں دو جہتی حکمت عملی کے تحت آپریشن شروع کیا گیا، جس میں ایک پرونگ انسداد دہشت گردی (کاؤنٹر ٹیررازم) کو دیکھتا تھا جبکہ دوسرا انسدادتشدد انتہا پسندی(کاؤنٹر وائلنٹ ایکسٹریم ازم) کو دیکھتا تھا، جہاں تک انسداد دہشت گردی پرونگ کا تعلق ہے تو اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طاقت کا استعمال صرف ریاست کی صوابدید ہے ، اس کے ساتھ موثر بارڈر مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے ویسٹرن زون کا مکمل استحکام اور ملک بھر میں دہشت گردوں کی حمایت کا خاتمہ شامل تھا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا نظریہ کا مقابلہ صرف اس سے برتر نظریے یا دلیل کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے ، اسی تناظر میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، قبائلی علاقوں کی قومی دھارے میں شمولیت، تعلیمی مدرسہ اور پولیس ریفارم میں حکومتی کاوشوں میں بھرپور معاونت کے ذریعے شدت پسندی کے عوامل پر قابو پانا شامل تھا۔آپریشن کے تفصیلی جائزے سے متعلق انہوں نے کہا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو بڑی حکمت عملی تھی اسے 4 الفاظ میں بیان کرسکتا ہوں جو کلیئر، بولڈ، بلٹ اینڈ ٹرانسفر تھے ، یہ وہ 4 مراحل تھے جس کے تحت ہم نے یہ لڑائی لڑی۔ انہوں نے کہا کہ 2010 سے اگر 2017 تک دیکھیں تو کلیئر اور بولڈ مرحلے کے تحت بڑے آپریشن کے بعد مختلف علاقوں کو دہشت گردوں سے صاف کرایا جاچکا تھا اور قبائلی علاقوں میں ریاست کی رٹ بحال ہورہی تھی۔ انہوں نے بتایا ردالفساد بلٹ اینڈ ٹرانسفر مرحلے کا آغاز ہے اس دوران مشکل سے حاصل ہونے والے فوائد کو ناقابل واپسی بنانا ہماری ذمہ داری تھی اور یہی چیز اصل میں دہشت گردی کے خلاف کامیابی کا حقیقی پیمانہ بھی ہے ۔، کائنیٹک آپریشن کے ذریعے علاقہ صاف کرنے کے بعد سماجی و معاشی ترقی اور سول اداروں کی عملداری دائمی امن کی جانب درست اقدام ہے اور اب اس کا اعتراف دنیا بھی کر رہی ہے ۔ انہوں نے بتایا گزشتہ 4 برسوں میں آپریشن ردالفساد کے تحت آپریشنز میں سی ٹی ڈی، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی، پولیس، ایف سی اور رینجرز نے بھرپور کردار ادا کیا۔ پنجاب میں 34 ہزار سے زائد، سندھ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد، بلوچستان میں 80 ہزار سے زائد اور خیبرپختونخوا میں 92 ہزار سے زائد خفیہ بنیادوں پر آپریشن کئے گئے ، ان میں چند بڑے آئی بی او بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے شہری دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملی اور بہت سے دہشت گرد نیٹ ورک کو ختم کیا گیا۔ انہوں نے کہا ردالفسار کے دوران خیبر 4 آپریشن بھی کیا گیا جس کا مقصد راجگال وادی کو کلیئر کرانا اور اس طرف پاک افغان سرحد کو محفوظ کرنا تھا جبکہ شمالی وزیرستان میں گزشتہ برس آپریشن دواتوئی کیا گیا اس دوران ساڑھے 7سو مربع کلومیٹر کے علاقے پر ریاست کی رٹ بحال کی گئی۔انہوں نے بتایا آپریشن کے دوران 72 ہزار سے زائد غیرقانونی اسلحہ اور 50 لاکھ سے زائد گولہ بارود ملک بھر سے برآمد کیا گیا، اس کے علاوہ 2017سے 2021کے دوران ملک بھر میں دہشت گردی کے ساڑھے 18 سو واقعات رونما ہوئے ، پاک افغان سرحد پر 1684 حملے کے واقعات ہوئے ، ان تمام واقعات اور آپریشنز کے دوران 353 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا اور سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے بتایا 2017سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت اور توسیع کے لئے بہت کوشش کی گئی، ایف سی کے 58 نئے ونگز قائم کیے جاچکے ہیں جبکہ مزید 15 کا قیام عمل میں لایا جانا باقی ہے ، مزید یہ کہ سرحدی انتظام کے تحت پاک افغان سرحد پر باڑ کا کام 84 فیصد اور پاک ایران سرحد پر 43 فیصد مکمل ہوچکا ہے ، بارڈر مینجمنٹ ڈویژن کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے بتایا ڈی مائننگ کے دوران 72 کلومیٹر سے زائد کا علاقہ کلیئر کیا جاچکا ہے ، یہ بہت سست عمل ہے اور اس دوران ہمارے 2 سپاہی شہید اور 119 زخمی ہوئے لیکن اس کی پیش رفت اچھی چل رہی ہے اور ہم 48 ہزار بارودی سرنگیں برآمد کرچکے ہیں۔انہوں نے بتایا 4 برسوں میں سکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں 37 ہزار 428 سے زائد پولیس کے جوانوں کو تربیت دی جبکہ اگلے 6 ماہ میں مزید 4 ہزار کو تربیت دے کر قبائلی اضلاع کی پولیس فورس میں شامل کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخارنے بتایا ردالفساد صرف فوجی آپریشن نہیں تھا بلکہ اس کا دائرہ کار پورے ملک پر محیط تھا اورنیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت بہت حد تک ہوچکی ہے اور کچھ شعبے ہیں ان پر کام ہونا ہے ، ادارے کی جانب سے جو کام کرنا تھا وہ ہوا ہے اور حکومت نے جو کام کرنا تھا وہ ہو رہا ہے اور جلد مکمل ہوجائے گا ، کام مثبت طرز میں ہو رہا ہے اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے امن عمل سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاافغان امن عمل وزارت خارجہ کے دائرے میں آتا ہے اس لیے تفصیلی بات نہیں کروں گا لیکن افغانستان میں امن سے پاکستان میں امن ہوگا اور پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور کرے گا لیکن وہاں کے اقدامات انہوں نے خود کرنے ہیں ، امریکا کی نئی انتظامیہ کے اقدامات سے متعلق ہم مثبت ہیں کہ بہتری ہوگی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا عالمی برادری نے ہمارے ڈوزیئر کا جواب مثبت دیا اور کئی عالمی تنظیموں نے بیانات اور دستاویزات دی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے ۔ترجمان پاک فوج نے کہا سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کے حوالے سے مواد پھیلا ہوا ہے ، دہشت گردی کو ابھارنے والے مواد اور لوگوں کو روکنے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں اور جلد ہی کوئی قانون بھی آئے گا، حکومت بھی کام کر رہی ہے ۔ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کی موجودگی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا ان کے جو نکات تھے ان پر اچھا خاصا کام ہوا ہے لیکن پاکستان میں پچھلے 3 سے 4 سال میں جو کام ہوا ہے اس کی توثیق ہر سطح پر ہوئی ہے اور اس حوالے سے ہم بہت مثبت ہیں۔میرعلی میں این جی اوز کے اراکین پر حملے پر انہوں نے کہا ہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بھرپور کارروائی کر رہے ہیں لیکن ہر واقعہ کو دہشت گردی سے نہیں جوڑنا چاہئے بلکہ امن و امان کے مسائل بھی ہیں ہمیں صرف واقعات پر مخصوص نہیں ہونا چاہئے بلکہ مجموعی حالات کو دیکھنا چاہئے ، قبائلی علاقوں میں مکمل حالات بہتر ہونے میں وقت لگے گا۔ان ضلاع کا اپنا کلچر ہے ان کو ضم ہونے میں ٹائم لگنا ہے ،پولیسنگ نارمل ہوگی تو بہت ساری چیزیں قابو میں آجائیں گی ۔اس موقع پر ایک صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے بہت سی چیزیں زیرگردش ہیں جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا یہ بے بنیاد قیاس آرائیاں ہیں، ان میں کوئی صداقت نہیں، فوج میں بطور ادارہ تعیناتیاں اتنی کم مدتی نہیں ہوتیں، ہر کوئی اپنی مدت پوری کرتا ہے اور عام طور پر فوج میں کسی ادارے کے سربراہ کے طور پر تعیناتی 2 سال کے لیے کی جاتی ہے ، میری گزارش ہوگی کہ اس طرح کی قیاس آرائیاں مزید نہ کی جائیں۔انہوں نے کہا عوام کی سپورٹ نہ ہوتی تو یہ جنگ نہیں لڑی جاسکتی تھی ،فوج اکیلی کچھ نہیں ہوتی ،فوج عوام کے بل پر ہوتی ہے ،اگر عوام ساتھ کھڑے ہیں تو فوج کچھ بھی کرسکتی ہے ،خدا نخواستہ عوام کی حمایت نہ ہوتو کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف فوج اور پولیس نے قربانیاں نہیں دیں بلکہ عوام نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اس کا اعتراف کیا جاتا ہے ، اس حوالے سے امدادی کام متعلقہ صوبوں کی حکومتوں کی جانب سے کیا جاتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا مشقیں نئے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے کی جاتی ہیں اور بہت کامیاب جارہی ہیں، تربیت اور اسلحے سے متعلق ہماری تیاری کے نتائج مثبت آرہے ہیں۔بھارتی میڈیا میں پاکستان مخالف پروگراموں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا ان کو نظر انداز نہیں کیا جاتا لیکن اگر ہر ایک کو جواب دیا جائے پھر ڈس انفو لیب نے انکشافات کیے جس نے کریڈیبلٹی پر واضح سوالات کھڑے کر دئیے ہیں اور جہاں ضروری ہو ہم جواب دیتے ہیں اور مستقبل قریب میں ہم اس طرح کے معاملات پر قابو پالیں گے ۔ چین سے فوج کو ملنے والی کووڈ-19 ویکسین کے متعلق سوال پر انہوں نے کہا اس کا فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ کس کو ویکسین دینی ہے ویسے ہر ایک کو اس کی ضرورت ہے ، میڈیا بھی فرنٹ لائن پر ہے سب کو دی جائے گی، جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو فوج اپنا کام کر رہی ہے اور کرتی رہے گی،اسی لئے فیصلہ کیا گیا کہ ہم سے زیادہ مستحق وہ ہیں جو خطرے میں کام کرتے ہیں اور آئندہ آنے والی کھیپ میں فوج اورمیڈیا سب شامل ہو نگے ۔دہشت گردی سے سیاحت تک کے سفر سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے سیاحت کا یہ سفر انتہائی کٹھن تھا ، جوعلاقے دہشت گردی کا شکار تھے اب وہاں اقتصادی کام ہورہے ہیں، قبائلی اضلاع میں31بلین روپے کی لاگت سے 831 منصوبوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ میجر جنرل بابرافتخار نے کہا کہ ان 4سال میں 1200سے زائدشدت پسند ہتھیار ڈال چکے ہیں، افواج پاکستان مشکلات کے باوجود اپنے کام میں مصروف رہیں، نیشنل سکیورٹی کے جتنے ایشوز آئے اس پر میڈیا نے بھرپور تعاون کیا۔ ہتھیار پھینکنے کے بعد ان لوگوں کی بحالی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ایسے لوگوں کیلئے مختلف مراکز میں سائیکالوجیکل اور موٹیویشنل طرز پر کام کیا گیا اور اس کا مثبت جواب آیا ، انہیں ڈرائیونگ اور مختلف ہنر سکھا دیئے گئے ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا گوادر کا کرکٹ سٹیڈیم دنیا کا خوب صورت ترین میدان ہے لیکن بین الاقوامی میچوں کے لئے الگ تقاضے ہوتے ہیں اور ہوسکے تو پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کا کوئی میچ رواں سیزن یا مستقبل میں وہاں منعقد کیا جائے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں