حفیظ شیخ نے ہارنے کے بعد عوامی عہدہ نہیں چھوڑا ، کیا یہ جمہوریت ہے ؟ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

حفیظ شیخ نے ہارنے کے بعد عوامی عہدہ نہیں چھوڑا ، کیا یہ جمہوریت ہے ؟ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

جمہوری ملکوں میں لوگ خود مستعفی ہوجاتے ،کوئی اور نہیں ملا؟لگتا ہے کام ختم ہونے پر حفیظ شیخ بیگ اٹھاکر روانہ ہوجائینگے ،پاکستان میں اثاثوں کی تفصیل طلب ، بادی النظر میں شعیب دستگیر کو ہٹاکر انعام غنی کی آئی جی تعیناتی خلاف قانون ،ہرکتے بلے کو بھونکنے کی اجازت نہیں دینگے ،اسسٹنٹ کمشنر کو توہین عدالت کا نوٹس

لاہور(کورٹ رپورٹر)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے کہا حفیظ شیخ نے ہارنے کے بعد عوامی عہدہ نہیں چھوڑا کیا یہ جمہوریت ہے ؟جمہوری ملکوں میں ہارنے پر لوگ خود مستعفی ہوجاتے ہیں ،حکومت کو کوئی اور نہیں ملا؟لگتا ہے کام ختم ہونے پر حفیظ شیخ بیگ اٹھاکر روانہ ہوجائینگے ، لاہور ہائیکورٹ نے وزیرخزانہ کے پاکستان میں اثاثوں کی تفصیل طلب کرلی، چیف جسٹس قاسم خان نے مقامی وکیل کی درخواست پر سماعت کی ،جس میں وزیر اعظم، وزارت قانون، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، شہزاد اکبراور دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ رکن اسمبلی ہیں اور نہ ہی سینیٹر ہیں مگر انہیں وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا ہے ، آئین کے آرٹیکل 92 کے تحت وزیر اعظم کی سفارش پر صرف رکن پارلیمنٹ کو ہی وفاقی وزیر کے عہدے پر مقرر کیا جا سکتا ہے ، چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ جمہوریت کا لفظ لکھ دینے سے ملک میں جمہوریت نہیں آجاتی بڑی بڑی باتیں کرنے سے ملک جمہوری نہیں ہوجاتا،عبدالحفیظ شیخ نے ہارنے کے بعد عوامی عہدہ نہیں چھوڑا کیا یہ جمہوریت ہے ؟ کیا ہارنے کے بعد عبدالحفیظ شیخ کو کسی عوامی عہدہ پر رہنا چاہیے ، بتائیں عبدالحفیظ شیخ صاحب نے انکم ٹیکس کتنا دیا؟کیا عبدالحفیظ شیخ کی پاکستان میں پراپرٹی ہے ؟لگتا ہے کام ختم ہونے پر عبدالحفیظ شیخ بیگ اٹھاکر روانہ ہوجائیں گے ، جمہوری ملکوں میں لوگ ہارنے کے بعد خود مستعفی ہوجاتے ہیں،کیا حکومت کو عبدالحفیظ شیخ کے علاوہ 22کروڑ عوام میں سے اور کوئی نہیں ملا،سرکاری وکیل نے کہا عبدالحفیظ کے اثاثوں سے متعلق نہیں پتاالبتہ مشیر سرکاری مراعات نہیں لیتے ،چیف جسٹس نے کہا کہ اس حوالے سے بیان حلفی دئیے جائیں،عدالت نے آئندہ سماعت پر عبدالحفیظ شیخ کے پاکستان میں اثاثوں سے متعلق ریکارڈ طلب کرتے ہوئے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور وفاقی کابینہ کے سیکرٹری سے بیان حلفی طلب کرلئے ۔دریں اثنا چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سول جج سے جھگڑا کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کروانے کی ہدایت کر دی،اسسٹنٹ کمشنر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تم کو بتائوں گا کہ عدالت کو کیسے تالے لگائے جاتے ہیں، آئندہ فرد جرم عائد کروں گا،ہر کتے بلے کو عدالت میں بھونکنے کی اجازت نہیں دیں گے ،آئندہ سے عدالت میں پولیس سکیورٹی کی موجودگی ضروری ہے تاکہ موقع پر سزا دے سکوں ،درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیاکہ سول جج سرگودھا محمد نعیم نے اسسٹنٹ کمشنر عمران حیدر کو ہتھکڑیاں لگوا دیں، اسسٹنٹ کمشنر کی گرفتاری کے خلاف بیورو کریسی نے احتجاج کیا ، عدلیہ مخالف احتجاج سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوئی ،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایف آئی اے مکمل ناکام ہو چکی ہے ۔ وزیر اعلیٰ ہائوس کے باہر احتجاج کرنے سے روکنے پر کمشنر، سی پی او اور دیگر کو معطل کر دیا گیا ،وزیراعلیٰ نے اپنی عزت کیلئے سب کو معطل کر دیا مگر عدالتوں کی عزت کی کسی کو پروا ہ نہیں ، اسسٹنٹ کمشنر کو نوکری سے نکال دینا چاہیے تاکہ معاشرے کی گندگی صاف ہو، چھوٹے بڑے کا لحاظ کیے بغیر سزائیں دوں گا،عدالت کے روبرو نادرا کی جانب سے بیوروکریٹس کی تصاویر کی تصدیق شدہ رپورٹ پیش نہ کی گئی جبکہ پیمرا کے وکیل عدالتی سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے ، ایف آئی اے کی رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ بیوروکریٹ عظیم شوکت اعوان کا موبائل لے کے فرانزک کیلئے بھیج دیا گیا ہے ۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر چیئرمین پیمرا اور ڈی جی ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سابق آئی جی شعیب دستگیر اور سی سی پی او لاہور کے تبادلے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی ،سرکاری وکیل نے آئی جی پنجاب کی جانب سے جواب جمع کروانے کیلئے مہلت کی استدعا کی جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا ۔عدالت نے آئی جی پنجاب اور سابق آئی جی کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 24مارچ تک جواب جمع کروانے کا آخری موقع دیدیا۔ چیف جسٹس قاسم خان نے قرار دیا کہ بادی النظر میں شعیب دستگیر کو ہٹانا اور انعام غنی کو ان کی جگہ پرآئی جی پنجاب تعینات کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے ، آئندہ سماعت تک جواب جمع نہ کروایا گیا تو آئی جی پنجاب کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل کردیں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں