سرمایہ کاری پر غیر ملکیوں کیلئے مستقل رہائش : قومی سلامتی پالیسی کے عوامی حصے کا اجرا معیشت کو مرکزی حیثیت حاصل، مسئلہ کشمیر کا حل ترجیح، گڈگورننس اور سیاسی استحکام بھی اہم قرار

سرمایہ کاری پر غیر ملکیوں کیلئے مستقل رہائش : قومی سلامتی پالیسی کے عوامی حصے کا اجرا معیشت کو مرکزی حیثیت حاصل، مسئلہ کشمیر کا حل ترجیح، گڈگورننس اور سیاسی استحکام بھی اہم قرار

اسلام آباد (محمد عادل )وفاقی حکومت نے غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی مستقل یا پانچ سے دس سال کی رہائش دینے کپاکستان میں ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے پر سکھوں سمیت تمام غیرملکی پانچ سے دس سال یا مستقل رہائش اختیار کرسکیں گے ۔

وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے بھی اپنے ٹویٹر پیغام میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نئی قومی سلامتی پالیسی کے تحت حکومت نے غیر ملکی شہریوں کیلئے مستقل رہائش کی سکیم کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذمہ دار حکومتی ذرائع نے روزنامہ دنیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت حکومت غیر ملکیوں کو مستقل رہائش یا پانچ سے دس سال کی رہائش دینے کے حوالے سے ترکی ، ملائشیا ،یورپ ،کینیڈا اور نارتھ امریکا کے کچھ ممالک کی طرز پرمختلف ماڈلز پر غور کر رہی ہے ، زیادہ ترممالک میں پراپرٹی میں سرمایہ کاری پر مستقل شہریت اور پاسپورٹ دیا جارہا ہے ،اس ماڈل کو پاکستان میں لانے کیلئے پالیسی کی تیاری شروع کردی گئی ہے ،قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد اس سکیم کو متعارف کروایا جائے گا ۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زائد پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو پانچ سے دس سال کی رہائش یا مستقل شہریت دی جاسکے گی ،اس سکیم کا سب سے زیادہ فائدہ دنیا بھر میں مقیم سکھوں ،افغانیوں اور چینی باشندوں کو ہوگا ، سکھوں کے مقدس مقامات پاکستان میں ہیں پوری دنیا میں مقیم سکھوں کی بڑی تعداد ننکانہ صاحب،کرتار پوراورحسن ابدال میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہشمند بھی ہے اگر وہ ایک لاکھ ڈالریا اس سے زیادہ سرمایہ کاری کریں گے تو انہیں پاکستان کی ریذیڈینسی مل سکے گی۔ ذرائع نے مزید بتایا ترکی میں افغانیوں کی بڑی تعداد سرمایہ کاری کے بدلے شہریت اختیار کررہی ہے پاکستان میں اگر یہ پالیسی لاگو ہو گئی تو انہیں پاکستان میں رہائش اختیار کرنے کا موقع بھی ملے گا ۔ ذرائع کا کہنا ہے اسی طرح چینی سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری اور رہائش اختیار کرنے کا موقع ملے گا ۔

وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا قومی سلامتی پالیسی کی روشنی میں پاکستان نے جیو اکنامکس کو اپنے قومی سلامتی نظریئے کا کلیدی جزو قرار دیا ہے ،نئی قومی سلامتی پالیسی کے مطابق حکومت نے غیر ملکی شہریوں کیلئے مستقل رہائش کی سکیم کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔نئی پالیسی کے تحت غیر ملکی افراد سرمایہ کاری کے عوض مستقل رہائشی کا درجہ حاصل کرسکیں گے ۔

 

پہلی قومی سلامتی پالیسی میں معیشت کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے قومی سلامتی کیلئے معاشی استحکام ضروری ہے جس کے بغیر انسانی اور روایتی سکیورٹی کا تحفظ ممکن نہیں ،پالیسی میں مسئلہ کشمیر کے حل کو ترجیح حاصل ہے جبکہ گڈ گورننس اور سیاسی استحکام بھی اہم قرار دئیے گئے ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ کو وزیراعظم آفس میں ایک تقریب کے دوران قومی سلامتی پالیسی کے عوامی حصے کا اجرا کیا ۔ تقریب میں وفاقی وزراء ، قومی سلامتی کے مشیر ، ارکان پارلیمنٹ ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ، تمام سروسز چیفس ، سینئر سول و فوجی حکام ، ماہرین ، تھنک ٹینکس ، میڈیا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ قومی سلامتی پالیسی اکانومی،ملٹری اورہیومن سکیورٹی کے 3 بنیادی نکات پر مشتمل ہے ۔پاکستان میں قومی سلامتی سے متعلق پہلی بارجامع پالیسی تیارکی گئی ہے ، سلامتی پالیسی پرسالانہ بنیادوں پرنظرثانی کی جائے گی۔

ہرنئی حکومت کوپالیسی میں ردوبدل کااختیارحاصل ہو گا جبکہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی قومی سلامتی پالیسی کی وارث ہو گی اور ہرمہینے حکومت نیشنل سکیورٹی کمیٹی کوعملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔قومی سلامتی پالیسی میں 2 سوسے زائدپالیسی ایکشن وضع کئے گئے ہیں ، پالیسی ایکشن کا حصہ کلاسیفائیڈ تصورہو گا ، خطے میں امن، رابطہ کاری اور ہمسایہ ممالک سے تجارت پالیسی کابنیادی نکتہ ہے جبکہ ہائبرڈوارفیئربھی قومی سلامتی پالیسی کا حصہ ہے ۔پالیسی میں قومی سلامتی کے روایتی اور غیر روایتی دونوں پہلوؤں کو سموتے ہوئے اس میں اقتصادی سکیورٹی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، یہ جیو اکنامک وژن سے لے کر جیوسٹرٹیجی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پائیدار و ہمہ جہت اقتصادی نمو کو اجاگر کرتی ہے جس کے نتیجہ میں روایتی اور انسانی سلامتی کے فروغ کیلئے وسائل کی وسیع تر دستیابی یقینی ہو گی۔

پالیسی میں قومی یکجہتی، دفاع ،جغرافیائی خودمختاری ، اندرونی سلامتی ، خارجہ پالیسی اور انسانی سکیورٹی سے متعلق ترجیحات کا تعین کیا گیاہے ۔پالیسی میں بڑھتی آبادی کو ہیومن سکیورٹی کا بڑاچیلنج قراردیاگیا ہے ، شہروں کی جانب ہجرت، صحت، پانی، ماحولیات، فوڈ، صنفی امتیاز ہیومن سکیورٹی کے اہم عناصر ہیں۔ایران سے معاملات عالمی پابندیاں ختم ہونے کے بعد بڑھانے کا اختیارحکومت وقت کو تجویز کیا گیا ہے جبکہ گڈگورننس،سیاسی استحکام ،فیڈریشن کی مضبوطی بھی پالیسی کا حصہ ہے ۔پالیسی کے اہم نکات کے مطابق سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے ۔ کشمیر بدستور پاکستان کی قومی سلامتی کا اہم مفاد رہے گا، بھارت کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں اور مسئلہ کشمیر کا حل تعلقات کا مرکزی نکتہ رہے گا۔دفاع کے حوالے سے ہمسائے میں جارحانہ اور خطرناک نظریہ کا پرچار، پرتشدد تنازع کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔

ہر قیمت پر مادر وطن کا دفاع ناگزیر اولین فریضہ قراردیا گیاہے ۔دشمن کی جانب سے کسی بھی وقت بطور پالیسی آپشن طاقت کے استعمال کے ممکنات موجود ہیں ۔ سلامتی پالیسی کے مسودے کے مطابق جنگ مسلط کی گئی تو دفاع کیلئے قومی طاقت کے تمام عناصر کے ساتھ بھرپور جواب دیا جائے گا، پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کاہرقیمت اور ہر صورت میں تحفظ کیا جائے گا۔ ہر جارحیت کا جواب دینے کے لیے کم لاگت، خود انحصاری پر مبنی جدید دفاعی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔پالیسی کے مطابق پاکستان کی جوہری صلاحیت علاقائی امن و استحکام کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے ،ملکی دفاع کیلئے کم سے کم جوہری صلاحیت کو حد درجہ برقرار رکھا جائے گا جبکہ تصفیہ طلب مسائل اور سرحدی مسائل بالخصوص ایل او سی پرتوجہ مرکوز کی جائے گی اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب پر توجہ مرکوز ہوگی۔پالیسی کے مطابق جعلی اطلاعات اور اثرانداز ہونے کیلئے بیرونی آپریشنز کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے گا۔

مسلح افواج کو مزید مضبوط بنانے کے لیے روایتی استعداد کار کو تقویت دی جائے گی۔دیرپا، مضبوط فضائی نگرانی، اثاثوں کے نیٹ ورک، مواصلاتی نظام، کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام کو وسعت دی جائے گی۔بحری، تجارتی سلامتی اور انسداد بحری قزاقی، جرائم کے خاتمے کے لیے بحری قوت کو مزید مضبوط بنایا جائے گا ۔سکیورٹی کو وسعت، سرکاری امور کی رازداری اور شہریوں کے اعداد و شمار کی سلامتی یقینی بنائی جائے گی۔بین الاقوامی ٹیکنالوجی نظام کے ساتھ موثر انداز میں شمولیت سے قومی مفادات کا مکمل تحفظ کیا جائے گا ۔خارجہ پالیسی کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ابھرنے والے رجحانات کے تناظر میں بھی اہداف کا تعین کیا گیا ہے ۔خارجہ تعلقات کے حوالے سے قومی سلامتی پالیسی میں چین ترجیحات میں شامل ہے ، سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے ۔ پالیسی میں کہا گیا ہے ایران کے ساتھ انٹیلی جنس تبادلے ، سرحدی علاقوں کی پٹرولنگ سے باہمی تعلقات بہترہوں گے ۔

افغانستان، وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ معاشی رابطے کا دروازہ ہے ، اقتصادی ربط کے تناظر میں افغانستان میں امن کیلئے حمایت کرنا پاکستان کا بنیادی محرک ہے ۔قومی سلامتی پالیسی میں کہا گیا مذہب و لسانیت کی بنیاد پر انتہا پسندی معاشرے کو درپیش بڑا چیلنج ہے ۔ خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات اہم قرار دئیے گئے ہیں تاہم سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دینے کیلئے عزم کا اظہار کیا گیاہے ۔ برطانیہ اور یورپین ممالک کے ساتھ اقتصادی اور تزویراتی تعلقات کو فروغ دیا جائے گا۔ روس کے ساتھ انرجی ، دفاعی تعلقات اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعلقات کو بہتر کرنا ترجیحات میں شامل ہیں ۔ افریقا، ایشیائی پسیفک ،آسٹریلیا ، لاطینی امریکا کے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو فروغ دیا جائے گا۔ قومی سلامتی پالیسی میں دہشت گردی قومی سلامتی اور ہم آہنگی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دی گئی ہے ۔

قبل ازیں وزیراعظم عمر ان خان نے اپنے کلیدی خطاب میں حکومت کے قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کے کامیاب اقدام کو اجاگر کرتے ہوئے کہا جب بھی عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے پاس جاتے ہیں مجبوری میں جاتے ہیں،آئی ایم ایف کی شرائط سے لوگوں پر بوجھ پڑتا ہے اورسلامتی بھی متاثر ہو تی ہے ۔ وزیراعظم نے کہا قومی سلامتی پالیسی ان کی حکومت کی اولین ترجیح تھی ، یہ متفقہ دستاویز بڑی محنت سے تیار کی گئی ہے ، وزیراعظم نے یہ ہدف حاصل کرنے پر قومی سلامتی کے مشیر اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دی ۔وزیر اعظم نے کہاہماری کوشش ہے کہ حکومت اور عوام ایک سمت میں چلیں، اگر معیشت درست نہیں تو آپ خود کو طویل عرصے تک محفوظ نہیں رکھ سکتے ۔انہوں نے کہا اگر ہر کچھ عرصے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی سکیورٹی متاثر ہوگی کیوں کہ ہمارے پاس کبھی مشترکہ نیشنل سکیورٹی کا تصور نہیں رہا ۔

انہوں نے کہا آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے شرائط ماننی پڑتی ہیں اور جب شرائط مانتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سکیورٹی کمپرومائز ہوتی ہے جو لازمی نہیں کہ سکیورٹی فورسز ہوں بلکہ اس کا مطلب یہ کہ آپ کو اپنے عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے اور سب سے بڑی سکیورٹی یہ ہوتی ہے کہ عوام آپ کے ساتھ کھڑے ہوں ۔انہوں نے کہا قومی سلامتی پالیسی میں جامع نمو کا تصور دیا گیا ہے یعنی جب تک ہم بحیثیت قوم ترقی نہیں کریں گے اور صرف ایک طبقہ ترقی کرجائے تو قوم ہمیشہ غیر محفوظ رہے گی۔انہوں نے کہا جامع نمو کا تصور یہ ہے کہ سب سے کمزور طبقے کی زندگی کو محفوظ بنایا جائے اور اسی مقصد کے لیے ہر خاندان کو ہیلتھ انشورنس دے کر محفوظ بنایا گیا ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں۔ وزیر اعظم نے کہا قومی سلامتی پالیسی درست سمت کا تعین بھی کرے گی اور قومی سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے ایک سمت میں گامزن ہونے کے لیے پوری حکومتی مشینری کی مدد کرے گی۔ انہوں نے کہا ہماری مسلح افواج ہمارا فخر ہیں۔

مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے خطرات کے باوجود ملک کو محفوظ رکھا۔ وزیراعظم نے کہاکہ ہماری خارجہ پالیسی کا بڑا مقصد خطے اور خطے سے باہر امن و استحکام رہے گا ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ قومی سلامتی کمیٹی باقاعدگی سے اس پر پیش رفت کا جائزہ لے گی ۔وزیر اعظم نے کہا کہ کسی بھی ملک کا تعلیمی نظام ہی قوم کی تشکیل کرتا ہے ، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تین نظام تعلیم پروان چڑھ رہے ہیں جبکہ سب سے محروم طبقہ مدارس میں زیر تعلیم ہے ۔ہم نے پہلی بار پانچویں تک یکساں قومی نصاب بڑی مشکل سے تشکیل دیا ہے جسے مرحلہ وار اگلی کلاسوں تک لے کر جائیں گے ۔وزیراعظم نے کہا دنیا کا کوئی بھی ملک قانون کی حکمرانی کے بغیر خوشحال نہیں ہو سکتا۔ ہماری جدوجہد یہ ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو، قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں کارٹل بن گئے ۔

قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے اظہار خیال کرتے ہوئے قومی سلامتی پالیسی کا وژن تفصیل سے بیان کیا ۔ معید یوسف نے کہا پاکستان کے ہرشہری کا تحفظ قومی پالیسی کا حصہ ہے ۔علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملاقات کی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم بھی موجود تھے ۔ ملاقات کے دوران سکیورٹی صورتحال اور ملکی حالات پر بات چیت ہوئی۔ دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے پاکستان کسی انسانی المیہ سے بچنے کیلئے افغان عوام کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو افغانستان کے حوالہ سے ا پیکس کمیٹی کے تیسرے اجلاس کی صدارت کے دوران کیا۔ اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری ،وزیر داخلہ شیخ رشید ، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور اعلیٰ سول و ملٹری حکام شریک تھے ۔

وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے افغانستان میں امداد کیلئے اقوام متحدہ کی اپیل کا خیرمقدم کیا۔ ا پیکس کمیٹی نے افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں افغان عوام کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اپیکس کمیٹی نے اقتصادی طور پر تباہ حال افغانستان میں انسانی جانوں کو بچانے اور مشکل کی اس گھڑی میں افغانوں کی مدد کیلئے عالمی برادری اور امدادی اداروں سے ایک بار پھر مدد کی اپیل کی۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی افغانستان میں انسانی المیہ سے بچاؤ کیلئے دوست ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی راہیں تلاش کریں تاکہ افغانستان میں طب، آئی ٹی، فنانس اور اکاؤنٹنگ کے شعبوں میں تربیت یافتہ افرادی قوت بھجوائی جا سکے ۔

انہوں نے افغانستان کی بحالی اور ترقی میں مدد کیلئے ریلویز، معدنیات، ادویہ سازی اور میڈیا کے شعبوں میں تعاون کی بھی ہدایت کی۔ قبل ازیں ا پیکس کمیٹی کو افغانستان کیلئے 5 ارب روپے کی امداد پر پیشرفت کے حوالہ سے آگاہ کیا گیا جس میں 50 ہزار میٹرک ٹن گندم سمیت غذائی اجناس، ہنگامی طبی سامان، سردی سے بچاؤ کیلئے پناہ گاہیں اور دیگر سامان شامل ہے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا افغانستان شدید موسم سرما کے دوران بھوک اور انسانی المیہ کی صورتحال پیدا ہونے کے دہانے پر ہے ،کمیٹی نے افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے امدادی اداروں پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کی مدد کیلئے فوری حرکت میں آئیں۔لئے سکیم متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے ،

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں