پرویزالٰہی وزیراعلیٰ پنجاب، وزیراعظم نے بزدار سے استعفیٰ لے لیا: ق لیگ کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ مستعفی عمران خان کیخلاف ووٹ کا اعلان
اسلام آباد، لاہور ،کراچی(خصوصی نیوز رپورٹر،سیاسی رپورٹرسے ،اپنے سیاسی رپورٹر سے ،سٹاف رپورٹر،دنیا نیوز)وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر مسلم لیگ ق کے رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کردیا، ق لیگ نے وزیراعظم پر اعتماد کا اظہارکردیا تاہم ق لیگ کے رہنما طارق بشیر چیمہ عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دینے سے انکار کرتے ہوئے وفاقی وزارت سے مستعفی ہوگئے ،پیر کے روز حکومتی وز راکے ایک وفد نے پرویز الٰہی سے ان کی رہائش پر ملاقات کی اور ان سے پنجاب میں حکومت کی تبدیلی سے متعلق مذاکرات کر کے انھیں وزیر اعظم کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کیلئے نامزدگی کے فیصلے سے آگاہ کیا۔
پرویز الٰہی سے ملاقات سے قبل وزیر اعظم نے حکومت کی سیاسی کمیٹی سے مشاورت کی جس میں کمیٹی کے شرکا نے انھیں پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے پر قائل کر لیا، ان کی منظوری کے بعدسیاسی کمیٹی کے شرکا نے پرویز الٰہی سے ملاقات کی اور انھیں وزیر اعظم سے ملاقات کی دعوت دی جس کے بعد پرویز الٰہی وزیر اعظم سے ملاقات کیلئے بنی گا لا پہنچ گئے جہاں صوبہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے معاملات طے پا گئے جس کے بعد وزیر اعظم نے انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کے فیصلے سے آگاہ کیا، بعد ازاں وزیراعظم عمران خان اور ق لیگ کے وفد کی ملاقات کا اعلامیہ جاری کیاگیا، اعلامیے کے مطابق ملاقات میں وزیراعظم نے پرویز الٰہی سے کہا کہ میں نے عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا ہے ، میں آپ کو اپنی پارٹی کی طرف سے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کرتا ہوں، میں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں،اعلامیے کے مطابق پرویز الٰہی نے وزیراعلیٰ پنجاب نامزدکرنے پر وزیراعظم عمران خان کا شکریہ اداکیا اور کہا کہ آپ کے اعتماد پر ان شاء اللہ پورا اتروں گا،اعلامیے کے مطابق وزیراعظم سے ملاقات میں پرویز الٰہی نے کہا کہ مسلم لیگ ق بطور اتحادی آپ کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی، اتحادی کی حیثیت سے مل کر عوام کی خدمت کریں گے ۔
وزیراعظم سے سندھ اور ملتان سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و پارٹی اراکین نے بھی ملاقاتیں کیں،ملاقات کرنے والوں میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، رکنِ قومی اسمبلی آفتاب صدیقی، اراکینِ صوبائی اسمبلی سندھ حلیم عادل شیخ، خرم شیر زمان، سعید آفریدی، جمال صدیقی، رابستان خان، شاہنواز جدون، علی عزیز، شہزاد قریشی، پارٹی اراکین ڈاکٹر سیما ضیا، عدنان اسماعیل، محسن گھمن، ملک عارف عدنان، راجیش کمار، مہیش کمار، رامیش کمار ، امین محمد،ملتان سے ندیم قریشی،جاوید اخترانصاری اور رکنِ تحریکِ انصاف ملک عدنان ڈوگر شریک تھے ،وزیر اعظم نے عوامی فلاح کے جاری ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحی بنیادوں پر تکمیل اور پارٹی تنظیم کو مزید مستحکم کرنے کی ہدایات جاری کیں۔وزیراعظم نے پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کا آج اجلاس طلب کرلیا، وزیراعظم اتحادیوں، منحرف ارکان سے رابطوں سے متعلق سیاسی کمیٹی کو نئے ٹاسک دیں گے ۔پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما اور وفاقی وزیر آبی وسائل چودھری مونس الٰہی نے کہا حکومت نے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا، پرویز الٰہی نے عہدے کی آفر قبول کر لی ہے ، طارق بشیر کو منا لیں گے۔
ترجمان پرویز الٰہی کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے کی منظوری کے بعد پنجاب کی کابینہ سمیت تمام عہدے تحلیل ہو جائیں گے ، پرویز الٰہی کل یا پرسوں حلف اٹھائیں گے پھر اعتماد کا ووٹ لیں گے ۔ادھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کی حکومت اور پاکستان مسلم لیگ(ق) کے درمیان پنجاب میں وزارتوں کے حوالے سے فارمولا بھی طے پاگیا۔ذرائع کے مطابق فارمولے کے مطابق پنجاب کی وزارت اعلیٰ مسلم لیگ ق کے پاس ہوگی، سپیکر اور سینئر وزیر تحریک انصاف سے ہوگا، دیگر وزارتوں کا پہلے والا فارمولا اسی طرح برقرار رہے گا۔واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ق لیگ کے ارکان کی تعداد 5 ہے جبکہ پنجاب میں ق لیگ کے ارکان کی تعداد 10 ہے ۔ مسلم لیگ(ن)کے منحرف ارکان صوبائی اسمبلی نے بھی پرویزالٰہی کی حمایت کا اعلان کردیا ،رکن پنجاب اسمبلی اشرف انصاری نے کہا پرویزالٰہی کوبطوروزیراعلیٰ پنجاب ووٹ دینگے ،ہمارے گروپ کے ارکان کی تعداد7 ہے ،پرویزالٰہی کومزید15ن لیگی ارکان بھی ووٹ دیں گے ۔پرویز الٰہی اور ق لیگ کے دیگر رہنمائوں نے پارلیمنٹ لاجز میں ایم کیو ایم کے وفد سے بھی ملاقات کی، ایم کیو ایم کے وفد میں خالد مقبول صدیقی، وسیم اختر، امین الحق، عامر خان ، اظہار الحسن، جاوید حنیف، کنور نوید، خواجہ اظہار ، صادق افتخار، کشور زہرا شامل تھیں۔
ادھر ق لیگ کے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے پرویز الٰہی کی طرف سے حکومتی آفر قبول کرنے کے فیصلے کے بعد وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور تحریک عدم اعتماد میں وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کیا، ٹی وی سے بات کرتے ہوئے طارق بشیر چیمہ نے اپنے استعفے کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ کسی صورت وزیراعظم کو ووٹ نہیں دیں گے اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کریں گے ،طارق بشیر چیمہ نے کہا میں اپنے فیصلے میں آزاد ہوں، چودھری شجاعت سے ملاقات میں گزارش کرتے ہوئے بتادیا تھا کہ میں وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد میں سپورٹ نہیں کروں گا ،پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ سے متعلق طارق بشیر چیمہ نے کہا پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہیں، دونوں کا ایک ہی فیصلہ ہوگا، پرویز الٰہی میرے محسن ہیں، ہر لحاظ سے میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں، معاملات کو بہتر کیا جاسکتا تھا، جس نہج پر معاملات کو لے جایا گیا اس پوزیشن پر لے کر نہیں جانا چاہیے تھا، معاملات کو بہتر کرنے میں وزیراعظم عمران خان نے بہت وقت ضائع کیا، بعض اوقات ہم جیسے لوگوں کے لیے استعفیٰ دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا، میرا ضمیر اجازت نہیں دے رہا کہ میں وزیراعظم عمران خان کی حمایت کروں۔
قبل ازیں اپوزیشن نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیخلاف پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں 127ارکان کے دستخطوں کے ساتھ تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جس کے ساتھ اجلاس طلب کرنے کی ریکوزیشن بھی جمع کرائی گئی،تحریک مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی رانا مشہود ، سمیع اللہ خان ، میاں نصیر، پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ سمیت دیگر نے جمع کروائی جس میں عثمان بزدار کی کارکردگی کو نشانہ بنایا گیا،اجلاس بلانے کی ریکوزیشن پر 120 ارکان نے دستخط کئے ۔دریں اثنا حکومتی وفد نے ایم کیو ایم کو گورنر شپ ، ایک اوروفاقی وزارت اور مشیر کی بھی پیش کش کردی ، ایم کیو ایم نے مشاورت کیلئے وقت مانگ لیا، حکومتی وفد میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد عمر کے ساتھ وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ علی زیدی اور گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی شامل تھے ۔ایم کیو ایم کے وفد میں خالد مقبول صدیقی، بیرسٹر فروغ نسیم، امین الحق، خواجہ اظہار الحسن، عامر خان، وسیم اختر، جاوید حنیف اور صادق افتخار شامل تھے ۔ایم کیو ایم تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مسلم لیگ ق کے فیصلے کے بعداپنے فوری فیصلے میں تذبذب کا شکار ہے ، ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے علاوہ بعض منتخب نمائندے اپوزیشن کا ساتھ دینے کے حق میں ہیں،ایم کیوایم کی اکثریت ممبران کی رائے اپوزیشن کا ساتھ دینے اور سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل کے حل کے لئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی رائے دے رہی ہے جبکہ ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کا جھکائو حکومت کی جانب ہے ،تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں ایم کیو ایم کی قیادت بھی تقسیم ہوگئی ہے۔
جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کو فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر سید امین الحق نے کہا ایم کیو ایم بدھ تک اپنے فیصلے کو سامنے لانے کی پوزیشن میں ہوگی،ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی وفد نے ایم کیو ایم کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے انہیں ان کے بند دفاتر کھولنے اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے فوری قدم اٹھانے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ایم کیو ایم کو حکومت اور مسلم لیگ ق کے درمیان ہونے والی پیش رفت میں دلچسپی تھی ، ایم کیو ایم جاننا چاہتی تھی کہ مسلم لیگ ق کے ساتھ ہمارے کیا معاملات طے پائے ہیں، ہم نے ان کو آگاہ کیا ہے ،ہمیں امید ہے کہ ایم کیو ایم بھی ق لیگ کی طرح ہمارے ساتھ مل کر چلنے کا فیصلہ کرے گی ۔ادھر قومی اسمبلی کے آزاد رکن اسلم بھوتانی نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کا عندیہ دے دیا،ٹی وی سے گفتگو میں اسلم بھوتانی نے کہا ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ نے کہا تھا کہ ساتھ مل کر فیصلہ کریں گے لیکن آج نئی ڈویلپمنٹ ہوئی ہے ، اس کے بعد مجھے خود فیصلہ کرنا ہوگا، تحریک انصاف کو میرے حلقے میں 215 ووٹ پڑے تھے ، تین سال حکومت کے ساتھ رہا، آج شہباز شریف سے بھی فون پر بات ہوئی ہے ، آصف زرداری سے ذاتی تعلق ہے ، انہیں ناراض نہیں کرسکتا۔