تحریک انصاف کو ڈینٹ پڑا ، عمران خان پھر بھی ڈٹ کر کھڑا

 تحریک انصاف کو ڈینٹ پڑا ، عمران خان پھر بھی ڈٹ کر کھڑا

(تجزیہ: سلمان غنی) نو مئی کو آرمی تنصیبات اور املاک پر حملوں کے بعد پیدا شدہ ہنگامی صورتحال کے با عث پی ٹی آئی کو چھوڑنے کے رحجان کے باوجود عمران خان مُصر ہیں کہ ان کا ووٹ بینک قائم ہے اور وہ جن کو ٹکٹ دیں گے وہی کامیاب ٹھہرے گا لہذا وہ اب بھی کامیابی کی امیدکیساتھ کھڑے ہیں۔

کسی بھی سیاسی لیڈر سے کسی بھی بڑے بحران میں یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ خود کو کمزور یا غیر مقبول ظاہر کرنے کی بجائے اپنی مقبولیت کا  بھرم قائم رکھتے ہوئے عوامی سطح پر مایوسی کا باعث نہیں بنتا جس کی بڑی مثالیں خود ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور اب عمران خان ہیں اور اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف نو مئی کو ہونے والے کریک ڈاؤن اور عمران خان کو چھوڑ کر پارٹی سے ر خصتی اختیار کرنے کے باوجود کیا عمران خان کی مقبولیت متاثر ہوئی ہے اور ان کی جماعت کو ڈنٹ پڑا ہے لہٰذا زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے جہاں تک بڑی تعداد میں پارٹی ذمہ داران اور سابق اراکین اسمبلی کا پی ٹی آئی سے ثابت ہونے اور نو مئی کے واقعات کی مذمت کا سوال ہے تو سیاسی تاریخ میں یہ ایک انوکھا واقعہ ہے کہ کسی سیاسی قوت نے اپنے مطالبات منوانے اور ریاستی اداروں پر اپنا دباؤ بڑھانے کیلئے ملک کے حساس اداروں کی تنصیبات اور املاک کو ٹارگٹ کیا ہو ۔پی ٹی آئی کی لیڈر شپ خواہ اس کی مذمت کرتی بھی نظر آئی لیکن وہ ان واقعات سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتی جہاں تک عمران خان کی جانب سے اپنے ووٹ بینک پر اصرار کا تعلق ہے تو وہ ایک نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہیں اور وہ اپنی سیاسی بقا کیلئے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ان کا ووٹ بینک قائم ہے ان کا یہ ووٹ بینک بنا کیسے تھا اور اس ووٹ کو کس طرح بروئے کار لا کر وہ مسند اقتدار پر پہنچے تھے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کنگز پارٹی کیسے بنتی ہے یہ بھی وہ بخوبی جانتے ہیں اور کنگز پارٹیاں کس طرح بکھرتی ہیں اس پر بھی انہیں توجہ دینی چاہئے لہٰذا یہ تو فی الحال کہا جا سکتا ہے کہ ان کی مقبولیت کسی حد تک قائم ہے لیکن کیا یہ قائم رہ سکے گی فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا جہاں تک پی ٹی آئی کے مستقبل کا سوال ہے تو ملک میں نادیدہ قوتیں سیاسی جماعتوں کو کمزور کر سکتی ہیں اس کی ساکھ پر اثر انداز ہو سکتی ہیں مگر اس کا خاتمہ کرنا ان کیلئے ممکن نہیں ہوتا جس کی مثال خود پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کی دی جا سکتی ہے جن کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو وہ سیاسی جماعتوں کے خاتمہ کیلئے سرگرم ہوئی کمزور کیا مگر ختم نہ کر سکی اور اب بھی معاملہ یہی ہے پی ٹی آئی کو حالات نے پسپا کیا ہے مگر اس کا سیاسی کردار ختم نہیں ہوا تحریک انصاف کی سیاسی قوت میں کمی آ رہی ہے پی ٹی آئی کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے باعث اس کے رہنما اور انتخابی امیدوار عمران خان کو چھوڑ رہے ہیں مگر عمران خان سیاسی تنہائی کے باوجود اپنی سیاسی بقا کیلئے سرگرم ہیں اور اسی بنا پر انہیں سیاسی محاذ پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نہ تو فی الحال عمران خان کاکردار ختم ہوا ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کا خاتمہ ممکن بنا ہے سیاسی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ باوجود اس امر کے کہ نو مئی کے واقعات نے ملک اور سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کی براہ راست ذمہ داری عمران خان اور ان کی جماعت پر آئی ہے لیکن ان کی مقبولیت تب ختم ہوگی جب اس کی مخالف سیاسی قوتیں ڈیلور کرتی نظر آئیں گی اور خصوصاً موجودہ حکومت کی جانب سے عوام کو کوئی ریلیف ملے گی جس کے فی الحال کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے ۔ اگر عمران خان کے معاملات بہتر ہوتے ہیں تو ہو سکتا ہے جس رفتار سے لوگ گئے تھے واپسی کا دروازہ بھی کھل جائے جس کیلئے عمران خان پس پردہ چینل بھی چلانے کیلئے کوشاں ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں