جمہوریت اور اسلام میں ایک شخص کو تمام اختیارات دینے کی اجازت نہیں:چیف جسٹس:آئین سے ہٹ کر قانون نہیں بنایا جاسکتا:جسٹس منیب

جمہوریت اور اسلام میں ایک شخص کو تمام اختیارات دینے کی اجازت نہیں:چیف جسٹس:آئین سے ہٹ کر قانون نہیں بنایا جاسکتا:جسٹس منیب

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر،نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی لائیو سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا جمہوریت اور اسلام میں ایک شخص کو تمام اختیارات دینے کی اجازت نہیں، فرد واحد نے ہی ہمیشہ ملک کی تباہی کی، پارلیمان کو احترام دینا ہوگا۔

جب مارشل لا لگتا ہے تو سب ہتھیار ڈال دیتے ہیں،کوئی جرات نہیں کرتا،کمرہ عدالت میں کتنی تصاویر لگی ہیں،کتنوں نے حلف کی خلاف ورزی کی،پارلیمنٹ کوئی قانون بنائے تو ہر کوئی آواز اٹھاتا ہے لیکن مارشل لا کی توثیق پر کوئی نہیں بولتا، مارشل لا لگے تو حلف کو بھلا دیا جایا جاتا ہے ،وہاں بھی ذرا سر اٹھا لیا کریں نا، آپ وہاں بھی پٹیشن لے کر آیا کریں نا، پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آ جاتا ہے ،پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے اختیار کو وسیع کیا ہے ،کم نہیں،یہ قانون مستقبل کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سینئر ججز پر بھی لاگو ہوگا، میں نے محسوس کیا کہ انہیں سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے لیکن چونکہ اس نے تمام ججوں کو متاثر کیا ہے اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ فل کورٹ کیس کی سماعت کرے ، از خود نوٹس کے مقدمات میں اگر اپیل کا حق دیا گیا تو کیا قیامت آجائے گی، کسی ایک بینچ کے فیصلے کو ترجیح دینا آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہو سکتا ہے ،جب عدالتیں قانون بنارہی ہوں تو یہ غلط ہے ، ان کا اختیار قانون کی وضاحت کرنا ہے ، اگر ایک قانون کوئی آئینی شق کی خلاف ورزی کر رہا ہو تو وہ ختم ہوتا ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ عدالتوں کے اختیارات لے لیے گئے ہیں،عدالت جب آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہے توبات ختم ہوگئی، آپ کی دلیل ہے کہ آئینی ترمیم سے یہ قانون بن جائے توٹھیک ہے ، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں توکیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یالوگوں کیلئے ہے ؟ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لیے ہے کہ اس کا ہرصورت دفاع کرناہے ؟ عدالت کی آزادی لوگوں کیلئے نہیں ہے ؟ اگرکل پارلیمنٹ قانون بناتی ہے کہ بیوائوں کے کیسزکو ترجیح دیں، کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثرہوگی؟، قانون سازی انصاف دینے کا راستہ ہموار اور دشوارکررہی ہے تویہ بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اورسے بھی ہے ؟ پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں، فرد واحد نے ہی ہمیشہ ملک کی تباہی کی ہے ، فرد واحد میں چاہے مارشل لا ہو یا کوئی بھی، ہمیں آپس میں فیصلہ کرناہے ، ججز سے آپ کو کیا مسئلہ ہے ، ایک چیف جسٹس نے فیصلہ کیا،وہ ٹھیک ہے زیادہ کریں توغلط ہے ، یہ قانون ایک شخص کیلئے کیسے ہے ، یہ بھی سمجھ نہیں آیا، سب بس پارلیمنٹ پر حملہ کر رہے ہیں، یہ دیکھیں قانون عوام کیلئے بہتر ہے یا نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال قانون سازی کی اہلیت کا ہے ، شاید سوال یہ نہیں کہ یہ قانون کتنا اچھا یا برا ہے ،اگر سوال اہلیت کا ہے تو معاملہ ایک سمت میں آگے بڑھتا ہے لیکن اگر جواب یہ ہے کہ قانون سازی کی اہلیت نہیں ہے تو پھر یہ معاملہ ختم ہو جاتا ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ اس ایکٹ کو بنانے کی اہل نہیں ہے کیونکہ اس کیلئے لازمی طور پر آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کیلئے بالکل مختلف طریقہ کار کی ضرورت ہے اور چونکہ اس طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا گیا، اس لیے یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ پارلیمنٹ ایسے قانون کو بنانے کی اہل نہیں تھی جس کا اثر آئین میں ترمیم کا ہو، اس طاقت کا استعمال آرٹیکل 191 کے تحت کیا گیا ہے جو آئینی مینڈیٹ ہے لہذا جہاں آئینی مینڈیٹ سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے وہاں ان قوانین کے ساتھ ایک خاص تقدس وابستہ ہوتا ہے ، آرٹیکل 191 کہتا ہے کہ آئین اور قانون کے تابع سپریم کورٹ عدالتی امور اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کیلئے رولز بنا سکتی ہے ، انصاف تک رسائی کے لیے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے ، درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے ہم بہت آگے نکل چکے ہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان کی رائے میں قانون نے صرف انصاف تک رسائی محفوظ اور یقینی بنائی، کیا پارلیمنٹ انصاف تک رسائی کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی اہل نہیں ہے ؟ اپیل کی فراہمی انصاف تک رسائی ہے ، وکلا نے موقف اپنایا کہ مذکورہ قانون عدلیہ کی آزادی کے خلاف اور عدالت کے انتظامی امور میں مداخلت ہے ۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا عدلیہ کی آزادی ایک نایاب چیز ہے یا عدلیہ کی آزادی لوگوں کیلئے ہوتی ہے ، اگر عدالت کی آزادی ہوگی تو عوام کیلئے بہتری ہوگی، اگر پارلیمان قانون بناتی ہے کہ بیوائوں کے مقدمات کو ترجیح دی جائے گی تو کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرسکتی ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا ہم یہاں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کیلئے بیٹھے ہیں،کیا محض عدلیہ کی آزادی کے سوال پر پارلیمنٹ کے بنائے قانون کو کالعدم کیا جاسکتا ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے مقدمات میں لا محدود اختیارات استعمال کیے ، عدالت کے فیصلوں سے انفرادی حقوق متاثر ہوئے ،یہاں تک کہ چینی کی قیمت کے تعین تک کے فیصلے کئے گئے ۔

ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہاکیا درخواست گزار ہم سے اگلے مارشل لا کا دروازہ کھولنا چاہتا ہے ، ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے فرد واحد کو آئین میں ترمیم کا ختیار دیا، ایک شخص کو کہا کہ آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کرنا ہے کر لے کیا درخواست گزار چاہتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلوں کا دوبارہ جائزہ نہ لیا جائے ،پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتے ،پاکستان کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا اسے نظر انداز نہیں کرسکتے ،پارلیمان کی قدر کرنا چاہیے ،فرد واحد نے اس ملک کو تباہ کیا ہے ،اجتماعی سوچ نے اس ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا،جو پاکستان میں ہوچکا اس کو مد نظر رکھتے ہوئے بتایا جائے کہ اس قانون کی سمت درست ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک چیف جسٹس نے طے کیا کہ اس نوعیت کے مقدمات پانچ سینئر ترین جج سنیں گے ،فرد واحد کہے تو ٹھیک،پارلیمان نے کہہ دیا تو غلط، چیف جسٹس کے اختیار کو چھوڑے بتائیں کہ اس قانون سے لوگوں کا فائدہ ہورہا ہے ،یا نقصان؟چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیا آپ متفق ہے کہ سپریم کورٹ چاہے جو بھی فیصلے کرے ،جب سپریم کورٹ کے فیصلے چلنے ہیں تو پھر آئین کی کیا اہمیت رہ گئی،میں تو اس سے متفق نہیں،ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے غلط فیصلے کیے ہیں،ازخود نوٹس غیر معمولی اختیار ہے ،پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں،پارلیمنٹ نے جو اختیار دیا وہ واپس بھی لے سکتی ہے ،چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ اس قانون کا اثر چیف جسٹس اور دیگر 2ججز پر ہوتا ہے ، ایک طرف چیف جسٹس کے اختیار کو کم کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب سینئر ججز کو اختیار بانٹا گیا، آرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا جبکہ پارلیمان نے آرڈیننس کے تحت 204 میں اپیل کا حق دیا ہے ، کیا پہلے اس نکتے کی وضاحت کر دیں کہ اپیل کا وہ حق کیسے درست ہے اور یہ غلط، سپریم کورٹ نے 184/3 میں وزیراعظم کو نااہل قرار دیا، آرٹیکل 204 میں کہاں لکھا ہے کہ اپیل کا حق حاصل ہوگا؟جسٹس منیب اختر نے کہا اصل سوال اختیار کا ہے ،کیا پارلیمنٹ کوسپریم کورٹ ریگولیٹ کرنے کا اختیار حاصل ہے ،کیا پارلیمنٹ اس طرح کے قوانین بنا سکتی ہے ،آئین نے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے انتظامی امور میں مداخلت سے باہر رکھا ہے ،دوسو کیس میں سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کی تو عاصمہ جیلانی کیس میں غلطی کی تصحیح کی،جسٹس منیب اختر نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ پھر یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمے گا، کل پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کو سونپ دے گا، آئین سے ہٹ کر کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔جسٹس منیب اختر نے کہا سپریم کورٹ کو اپنے ماضی کے فیصلوں کو درست کرنے کے لیے اپیل کے حق کی ضرورت نہیں ہے ، کیا قانون کا سیکشن 3 آرٹیکل 184(3) سے براہ راست متصادم نہیں؟جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمنٹ اس طرح کی قانون سازی کرسکتی ہے جس سے سپریم کورٹ براہ راست متاثر ہو؟،آرٹیکل 191پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے کام میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا،آئین نے جہاں اپیل کا حق دینا تھا دیدیا ہے ،اگر آرٹیکل 184/3میں اپیل کا حق دینا ہے تو آئینی طریقہ کار کے مطابق دے ،باز محمد کاکڑ کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ عام قانون کے ذریعے رولز تبدیل نہیں کیے جاسکتے ،سپریم کورٹ کے رولز پارلیمنٹ کے بنائے گئے عام قانون سے افضل ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ انصاف تک رسائی کیلئے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے ۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دئیے کہ کیا اہلیت نہ رکھنے کے باوجود پارلیمنٹ قانون بنائے تو اسے نیت اچھی ہونے کی بنا پر درست قرار دیا جا سکتا ہے ؟جسٹس شاہد وحید نے کہا پارلیمنٹ کو جس قانو ن کے بنانے کا اختیار نہیں تھا اسے اس لیے درست مانا جائے کہ قانون بنانے کی نیت اچھی ہے ؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پارلیمنٹ نے متاثرہ فریق کو اپیل کاحق دے کر انصاف تک رسائی کا راستہ دیا ہے ،پوری دنیا سے کوئی مثال بتائے کہ ایک غیر منتخب عدالت کے بنائے رولز پارلیمنٹ کے بنائے قانون سے افضل ہوتے ہیں۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا سوال اپیل کا حق دینے کا نہیں،طریقہ کار کا ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آرٹیکل 199نے پارلیمنٹ کو عدلیہ سے متعلق قانون سازی کا اختیار دیا ہے ، مسابقتی کمیشن قانون سمیت بہت سے قوانین میں سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا ہے ، آئین میں جو چیزیں نہیں کیا قانون سازی سے ان کو شامل نہیں کیا جا سکتا؟ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری سے استفسار کیا کہ تحریک انصاف کوسیاسی جماعت کے طور پر ایکٹ سے فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان؟وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمیں کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے ، مجھے ہدایات ہیں کہ میرا موکل شاید دوبارہ اقتدار میں آئے تو اس قانون سازی سے فرق پڑے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل پندرہ رکنی فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاایک طرف چیف جسٹس کے اختیارات محدود نہیں تو کم ضرور کیے جا رہے ہیں، دوسری طرف، وہی اختیارات سینئر ججوں میں تقسیم کئے جا رہے ہیں، یہ قانون مستقبل کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سینئر ججز پر بھی لاگو ہوگا،میں نے محسوس کیا کہ مجھے سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے لیکن چونکہ اس نے تمام ججوں کو متاثر کیا ہے ، اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ فل کورٹ کیس کی سماعت کرے ۔ چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کے وکلا پر زور دیا کہ وہ ایسے نکات پر بات کریں جو کیس سے متعلق ہوں، ہم آج کیس کو نمٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ وکیل اکرام چودھری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کسی خاص مقصد کیلئے بنایا گیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184/3میں اضافہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے ، ایکٹ کے سیکشن 8 نے عدلیہ کی آزادی کے تصور کو ختم کر دیا، ترمیم سے ایسے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی ہے جو پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں نہیں، یہ قانون ادھوری پارلیمنٹ نے پاس کیا جس کے پاس آئینی ترامیم کا اختیار نہیں تھا، ایکٹ آئین سے متصادم ہے ،جب کوئی قانون غیر آئینی ہے تو یہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہوگا کہ وہ اس پر غور کرے اور اسے غیر آئینی قرار دے ۔

چیف جسٹس نے کہا کیا عدلیہ کی آزادی ہی وہ واحد تصور ہے جس کا ہر حال میں دفاع کیا جانا چاہیے ؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ شاید سوال یہ نہیں کہ یہ قانون کتنا اچھا یا برا ہے ، سوال قانون سازی کی اہلیت ہے ؟ اگر سوال اہلیت کا ہے تو معاملہ ایک سمت میں آگے بڑھتا ہے لیکن اگر جواب یہ ہے کہ قانون سازی کی اہلیت نہیں ہے تو پھر یہ معاملہ ختم ہو جاتا ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ اس ایکٹ کو بنانے کی اہل نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے لازمی طور پر آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کے لیے بالکل مختلف طریقہ کار کی ضرورت ہے اور چونکہ اس طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا گیا، اس لیے یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ پارلیمنٹ ایسے قانون کو بنانے کی اہل نہیں تھی جس کا اثر آئین میں ترمیم کا ہو۔جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمنٹ انصاف تک رسائی کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی اہل نہیں ہے ؟۔وکیل حسن عرفان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ قانون سپریم کورٹ کے کام کی جگہ لے رہا ہے اور اسے کمیٹی کو منتقل کر رہا ہے ، آئین نے انتظامی اختیار اختیارات عدالت عظمیٰ کو دئیے اور سپریم کورٹ رولز بنائے اور پھر سپریم کورٹ نے اپنا مکمل اختیار چیف جسٹس کو دے دیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آرٹیکل 191 نے سپریم کورٹ کو ایسے قوانین بنانے کا اختیار دیا جو انتظامی نوعیت کے ہوں، بینچوں کی تشکیل اور مقدمات کا تعین انتظامی اختیار ہے ،سپریم کورٹ عدالتی امور اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کیلئے رولز بنا سکتی ہے ۔سماعت میں وقفے کے بعد دلائل دیتے ہوئے وکیل حسن عرفان نے کہا کہ تمام عہدوں کے حلف میں آئین کا تحفظ، حفاظت اور دفاع کے الفاظ مشترک ہیں، اس کے بعد وکیل نے ججوں کا حلف پڑھ کر سنایا۔

عدالت کے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ پارلیمنٹ کو اس طرح کی قانون سازی کا اختیار نہیں۔پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جہاں تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز کا تعلق ہے پارلیمنٹ بذات خود کوئی قانون نہیں بنا سکتی، یہ ہو سکتا ہے لیکن اس اختیار کو آئین کے اندر مختلف ایکسپریس اور ساختی حدود سے محدود کر دیا گیا ہے ۔انھوں نے کہا کہ جو معاملات کا وفاقی لسٹ میں درج نہ ہو یا آئین میں ذکر نہ ہو پارلیمنٹ اس بارے قانون سازی نہیں کرسکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر تو پارلیمنٹ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، خلا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکتی کیونکہ ان کا وفاقی فہرست یا آئین میں ذکر نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اصلاح کیلئے غلطی تسلیم کرنا ضروری ہے ،ایک دن سپریم کورٹ کسی فیصلے کو درست، دوسرے دن غلط بھی کہہ سکتی ہے ،آپ کہیں سپریم کورٹ نے غلط کیا تھا،یا پھر یہ کہیں گے کہ سپریم کورٹ جنگل کا بادشاہ ہے جو چاہے کرے ،ایسے تو ملک آئین پر نہیں ججز کے فیصلوں کے ذریعے بنائے قوانین پر چلے گا۔مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں،مولوی تمیز الدین سے شروع کریں یا نصرت بھٹو سے ،انہوں نے کہا آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کرنا چاہو کرو، پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہونے نہیں دے سکتے ۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہاکہ پارلیمنٹ کی قدر کرنی چاہئے ،کھل کر بات کیجیے ،ہمارے صدر بیٹھے ہیں، یہ کہتے ہیں فلاں ڈاکٹرئن ہیں کیس نہیں لگتا،فردواحد نے اس ملک کی تباہی کی ہے ،فردواحد میں چاہے مارشل لا ہو یا کوئی بھی،ہمیں آپس میں فیصلہ کرنا ہے ، ججز سے آپ کو کیا مسئلہ ہے ،ایک چیف جسٹس نے فیصلہ کیا، وہ ٹھیک ہے زیادہ کریں تو غلط ہے ،یہ قانون ایک شخص کیلئے کیسے ہے ، یہ بھی سمجھ نہیں آیا،سب بس پارلیمنٹ پر حملہ کررہے ہیں،یہ دیکھیں قانون عوام کیلئے بہتر ہے یا نہیں،وکیل حسن عرفان نے کہاکہ آپ 15ججز بیٹھے ہیں جو فیصلہ کریں کرسکتے ہیں۔عزیر بھنڈاری کے دلائل مکمل ہوئے تو کیس کی مزید سماعت پیر نو اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔عدالت نے مسلم لیگ ن،ایم کیوایم سمیت دیگر باقی رہ جانے والے وکلا کوتیاری کرکے پیش ہونے اور تحریری دلائل بھی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ۔عدالت نے کہا کہ پیر کوسماعت مکمل کرکے فیصلہ دیں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں