انتخابات:فوج طلبی کا مطالبہ میرے سامنے نہیں آیا،اگر ہوا تو متعلقہ اداروں سے بات کرینگے:نگران وزیراعظم

انتخابات:فوج طلبی کا مطالبہ میرے سامنے نہیں آیا،اگر ہوا تو متعلقہ اداروں سے بات کرینگے:نگران وزیراعظم

اسلام آباد( دنیامانیٹرنگ،اے پی پی )نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے عام انتخابات کے لئے جن سیاستدانوں نے سکیورٹی مسائل پر بات کی ہے انہوں نے پہلے کہا ہم الیکشن کے لئے تیار ہیں الیکشن میں سکیورٹی کے لئے فوج کی طلبی کا اب تک کوئی مطالبہ میرے سامنے نہیں آیا جب یہ بات سامنے آئی تو سکیورٹی مسائل کی شدت کو دیکھتے ہوئے متعلقہ محکموں اور اداروں سے بات کریں گے ۔

 ٹی وی سے انٹرویو میں نگران وزیر اعظم نے کہا پہلے پولیس کی صلاحیت اور نفری کو دیکھا جائے گا کہ کیا وہ یہ معاملہ سنبھال سکتی ہے یا نہیں اور پھر دوسرے اداروں کی بات ہوگی، اگر بم چل رہے ہوں یا روزانہ شدید نوعیت کی کارروائیاں ہو رہی ہوں تو الگ طرح کی سکیورٹی کی ضرورت ہوگی اوروہاں فوج سے بات  کی جائے گی۔نگران سیٹ اپ پر اعتزاز احسن کے تبصرے پر انوارالحق کاکڑ نے کہا اعتزاز احسن حاضر جواب قسم کی شخصیت ہیں وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، ان کی کسی بات کو زیادہ سنجیدہ نہیں لینا چاہئے ۔اگر نگران وزیراعظم نہ ہوتے تو کس جماعت میں شامل ہوتے کے سوال پر انہوں نے کہا سرگرم سیاسی کارکن اور رکن پارلیمنٹ ہونے کی وجہ سے اس عہدے پر آنے سے پہلے تمام بڑے سیاسی قائدین سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں،بانی چیئرمین پی ٹی آئی ، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اس عہدے کی مدت ختم ہونے پر اگر کسی جماعت نے شمولیت کی دعوت دی تو ضرور اس پر غور کروں گا۔مریم نواز کی سیاسی بصیرت کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا وہ تمام معاملات میں گہری دلچسپی لیتی ہیں لیکن ایک ملاقات میں کسی کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔پی ٹی آئی رہنماؤں کی روپوشی، وفاداریاں تبدیل کرنے اور بعض اداروں کی طرف سے ناروا سلوک کی شکایات کے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا غائب رہنے یا چلہ کاٹنے والے سیاستدان خود بتائیں کہ وہ کیوں چلے پر گئے اور کس ادارے سے انگیج رہے ہیں اور کس بنیاد پر انہیں اس کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا اگر آپ کو کسی خاص شخص کا معاملہ پوچھنا مقصود ہے تو اس کا متعلقہ اداروں سے پتا کر کے بتا سکتا ہوں، پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن مہم روکنے کی کوئی شکایت آئی تو اس پر غور کریں گے کیونکہ جو لوگ 9 مئی کے واقعات میں ملوث نہیں ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے ، وہ الیکشن لڑیں اور مہم چلائیں۔ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا ہمارے سارے کام مستقل حکومت کر سکتی تھی ویسے تو اس نگران حکومت کی کوئی ضرورت ہی نہیں لیکن نگران حکومت منتخب حکومت والے تمام ضروری کام کر سکتی ہے ، آنے والی منتخب حکومت نے اگر فوجی عدالتوں والی اپیل واپس لینا چاہی تو لے سکتی ہے ۔

سول ، ملٹری تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے متعلق انوارالحق کاکڑ نے کہا میں سیاستدانوں کو سول ، ملٹری تعلقات کی بہتری کے گر بتا نہیں سکتا بلکہ میں تو سیاستدانوں سے خود سیکھ رہا ہوں، انسان کچھ اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے کچھ دوسروں سے سیکھتا ہے ۔عافیہ صدیقی کے ساتھ جیل میں روا رکھے گئے سلوک اور جنسی زیادتی کے حوالے سے انوارالحق کاکڑ نے کہا عافیہ صدیقی کے ساتھ ظلم کی خبریں مجھ تک پہنچی ہیں میں نے متعلقہ حکام کو معاملہ بنیادی انسانی حقوق کے طور پر اٹھانے کے لئے کہا ہے ، عافیہ صدیقی اگرچہ امریکی قانون کے تحت قید ہیں لیکن ایسا سلوک بنیادی انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور واپسی پر امریکا یا کسی اور ملک کے ردعمل اور امریکی وفود کی پاکستان میں موجودگی پر ان کا کہنا تھا ہرملک یہ تسلیم کرتا ہے کہ بغیر رجسٹریشن کے کوئی غیر ملکی شہری کسی دوسرے ملک میں نہیں رہ سکتا، غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کی واپسی ہمارا اندرونی معاملہ ہے ، اب ملک میں بغیر رجسٹریشن کوئی نہیں رہے گا، جو رجسٹرڈ نہیں ہیں وہ متعلقہ مراکز میں جائیں اور رجسٹریشن کروائیں۔دریں اثنا انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا قوم کو آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بارے میں کوئی شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہئیں۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے ، یقیناً انتخابات ہوں گے اور خدشات بسا اوقات ہمارے سیاسی نظام کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ ہماری اپنی ایک تاریخ ہے لیکن جب میں نسبتاً کہتا ہوں تو اس پر بھی مجھ پر تنقید ہوتی ہے اس خطے میں فری اینڈ فیئر کا جو پیمانہ ہے ، اس کے مطابق مجھے امید ہے کہ وہ (انتخابات)فری ہوں گے ۔

ان کا کہنا تھا وہ الیکشن کمیشن کے تاخیر کے تردیدی بیان کی توثیق کرتے ہیں،الیکشن کمیشن نے ہی انتخابات کروانے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کچھ لوگوں کے خیال میں انتخابات بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی اور انتخابی عمل سے انہیں باہر کرنے سے جڑے ہیں نگران وزیراعظم کا کہنا تھا یہ سیاسی تجزیے ہیں، مختلف لوگ مختلف آرا رکھتے ہیں تاہم ہماری ایک واضح پوزیشن ہے ، الیکشن کمیشن اعلان کرچکا ہے کس رہنما کی کتنی مقبولیت ہے یا نہیں ہے اس کا اندازہ انتخابات میں ہو جائے گا۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی یا ان کی پارٹی کو انتخابات میں حصہ لیتے دیکھ رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ابھی تک تو ان پر کوئی قدغن نہیں ہے ۔تاہم اگر کوئی غیرمعمولی چیز جس کا ہمیں آج علم نہیں ہے آ جاتی ہے تو اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آج تک تو وہ (انتخاب)لڑنے کی پوزیشن میں ہیں اور وہ لڑیں گے ۔نگران حکومت کے دور میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گمشدگیوں، منظرعام پر آنے اور پھر سیاست چھوڑنے کے اعلانات کے بارے میں ان کا کہنا تھا وہ اسے ‘روپوش’ کہیں گے ۔ 9 مئی کو ریاستی اداروں پر حملے ہوئے وہ انہیں پکڑنا چاہتے تھے اس سلسلے میں کئی لوگ روپوش ہوئے ۔ اس روپوشی کے دوران انہوں نے شاید کوئی سوچ بچار کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ پی ٹی آئی یا سیاست سے کنارہ کشی کر لیں یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا، میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ نگران وزیراعظم نے کہا ان کے علم میں ریاستی جبر یا زبردستی کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے لیکن ان لوگوں میں سے کسی نے ریاستی جبر کی بات نہیں کی ،اس وقت تک تو یہ محض الزامات کی حد تک ہے ۔وزیر اعظم اس تجویز سے متفق نہیں تھے کہ نو مئی کا فیصلہ عوام پر ان انتخابات میں چھوڑ دیا جائے ۔

انہوں نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کیا۔ پی آئی اے کی نجکاری کے پیچھے مخصوص عناصر کے ہونے سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا یہ سازشی مفروضے ہیں جن کی وجہ سے ملک اس نہج پر پہنچ گیا ہے ۔نجکاری کے لئے بہترین طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے جس کا 50 سال بعد بھی آڈٹ ہو سکے گا۔ انوار الحق کاکڑ نے غیرقانونی طور پر ملک میں مقیم افغانوں کو واپس بھیجنے کے معاملے پر کہاافغانوں کے دل و دماغ جیتنے کا ہدف ہی غلط ہے ۔ ہماری اہم ذمہ داری پاکستان ہے افغانستان نہیں۔ان کا کہنا تھاہم نے سب سے پہلے پاکستانیوں کے دل و دماغ جیتنے ہیں۔ جو غلط عادات پچھلی چار دہائیوں میں پڑ گئی تھیں، انہیں تبدیل کرنے میں وقت بھی لگے گا، تکلیف بھی ہوگی، چیلنج بھی ہوگا۔انہوں نے کہا جو لوگ دستاویزات کے بغیر مقیم ہیں انہیں کہا وہ اپنے وطن واپس جائیں اور ویزالے کر جب چاہیں دوبارہ آ جائیں، ان پر کوئی مستقل پابندی نہیں لگا رہے ۔ انٹرویو کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے پاس امریکی اسلحے کی موجودگی سے متعلق سوال پر انوار الحق کاکڑ نے کہا یہ اسلحہ جدید ہے ، ان کے پاس نائٹ ویژن گاگلز، تھرمل وغیرہ ہیں اور یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو ایک ریاست سے دوسری ریاست کو ملتی ہیں۔انہوں نے کہا ہمارا نقطہ نظر یہ ہے جو سوا لاکھ، ڈیڑھ لاکھ اور کاغذوں میں تین لاکھ افغان فورس تھی جو 78 گھنٹوں میں غائب ہو گئی، وہ اسلحہ کہاں گیا؟ کیا وہ بھی طالبان نے ان سے چھینا ہے ؟ یا سی 130 کے ذریعے واپس امریکا بھیج دیا؟ سوال تو بن رہا ہے ۔ان کا کہنا تھا پاکستان کوئی الزام نہیں لگا رہا، اس کے شواہد پورے خطے میں موجود ہیں۔ یہاں سے لے کر مشرق وسطیٰ تک یہ اسلحہ فروخت ہوا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں