سنی اتحاد کونسل نے خط لکھا کہ مخصوص نشستیں نہیں چاہتے:چیف الیکشن کمشنر:غلط مطلب نکالا گیا:حامد رضا:فیصلہ محفوظ

سنی اتحاد کونسل نے خط لکھا کہ مخصوص نشستیں نہیں چاہتے:چیف الیکشن کمشنر:غلط مطلب نکالا گیا:حامد رضا:فیصلہ محفوظ

اسلام آباد (نیوز رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک) الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں دینے کے معاملے میں دائر تمام 10درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا سنی اتحاد کونسل نے خط لکھا کہ مخصوص نشستیں نہیں چاہتے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا خط کا غلط مطلب نکالا گیا ۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی صدارت میں کمیشن نے گزشتہ روز تمام درخواستوں پر ساڑھے چار گھنٹے طویل سماعت کی اور ہر فریق کے دلائل سنے ، سنی اتحاد کونسل کی جانب سے وکیل علی ظفر، ایوب کھوسہ، بیرسٹر گوہر اعجاز نے دلائل دئیے ، بیرسٹر علی ظفر نے سب سے طویل تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ دلائل دئیے ۔ انہوں نے کہا مخصوص نشستیں اگر سنی اتحاد کونسل کو نہ دی گئیں تو کسی اور کو بھی نہیں دی جا سکتیں ، ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایک نشست والی جماعت کو 26 مخصوص نشستیں الاٹ کر دی جائیں، دوسرا طریقہ ہے کہ نشستوں کو خالی رہنے دیا جائے جو کہ ممکن نہیں ، ہر صورت میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دی جائیں ۔پیپلز پارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک، ایم کیو ایم کی جانب سے فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا قواعد کے تحت مخصوص نشستوں کی فہرست پہلے جمع کرانی لازمی ہے ، الیکشن کمیشن جمع کرائی گئی فہرست میں اضافہ یا تبدیلی کر سکتا ہے مگر سیاسی جماعت کی جانب سے مقررہ مدت کے اندر فہرست جمع نہ کرانے کے بعد فہرست جمع نہیں ہو سکتی ۔بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ بے شک ختم کردیں لیکن اس کیلئے طریقہ کار پر عمل کرنا پڑے گا، سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے جسے الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان الاٹ کر رکھا ہے ۔ اگر ایس آئی سی کو مخصوص نشستیں نہ بھی دی جائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی جائیں، اگر کوئی سیاسی جماعت اسمبلی میں 20 جنرل نشستیں حاصل کر پائی اسے 30 جنرل نشستوں کے حساب سے مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں، آئین میں درج ہے کہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد کیا جائے گا۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا اس آرٹیکل کی یہ تشریح بھی ہو سکتی ہے کہ مخصوص نشستیں صرف اس جماعت کو ملیں گی جو الیکشن کے ذریعے اسمبلیوں میں آئی، سنی اتحاد کونسل نے ترجیحی نشستوں کی فہرست بھی جمع نہیں کرائی، قانون میں یہ تو نہیں کہ اگر کوئی مقررہ وقت پر فہرست جمع نہیں کرواتا تو وہ بعد میں فہرست دے سکتاہے ۔ممبر کمیشن بابر حسن بھروانہ نے کہا کہ جن جماعتوں کے ارکان نے نشستیں جیتیں ان جماعتوں میں کیوں نہ مخصوص نشستیں تقسیم کریں؟ علی ظفر نے کہا آئین کے مطابق سیاسی جماعت کا پارلیمانی ہونا کوئی شرط نہیں، مخصوص نشستیں نہ دینے سے سینیٹ الیکشن میں بھی سنی اتحاد کونسل کو نقصان ہوگا۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھا گیا خط دکھایااور بتایا کہ خط میں سنی اتحاد کونسل نے لکھا ہے انہوں نے جنرل الیکشن میں حصہ نہیں لیا اس لیے خواتین کی نشستوں کا انتخاب نہیں کیا جاسکتا ہے ،بیرسٹر علی ظفر نے سنی اتحاد کونسل کے خط سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل نے ایسے کسی خط کے حوالے سے نہیں بتایا۔ بعدازاں سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا مراسلے میں جنرل نشستوں پر خواتین کے کوٹہ کے حوالے سے جواب دیا تھا مخصوص نشستوں کا اس خط سے کوئی تعلق نہیں ،الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کی حقائق کے برعکس تشریح کی جارہی ہے اور اس کا غلط مطلب لیا جا رہا ہے ، الیکشن کمیشن عام انتخابات کرانے کے بعد تمام پارٹیوں کو خط لکھتا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں پانچ فیصد کوٹہ خواتین کو دیا جاتا ہے۔

وہ خط صرف ہمیں نہیں لکھا گیا تمام جماعتوں کو لکھا گیا ہے ۔ چونکہ سنی اتحاد نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا اس لیے ہم نے صرف یہ بتایا کہ ہم نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا اس لیے ہمارے پاس 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کی ایسی کوئی فہرست موجود نہیں۔ ہم نے یہ کسی جگہ پر نہیں کہا کہ ہمیں مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں ، ہمارے پاس خط موجود ہے ، اس خط میں مخصوص نشستوں کی تو کوئی بات ہی نہیں کی، اس کو آرٹیکل 206 کی بنیاد پر پڑھا جانا چاہیے ، میرا بیان حلفی موجود ہے کہ اگر ہم الیکشن لڑیں گے تو مخصوص نشستیں لیں گے ، میرے خط کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ، الیکشن کمیشن کے خط بھی ہمارے پاس ہیں، باقی الیکشن کمیشن جو مرضی فیصلہ کرلے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں