پولیس والوں کو تو معطل کر دیتے ہیں ،کیا ایجنسیوں میں کوئی جوابدہ ہے:اسلام آباد ہائیکورٹ

پولیس والوں کو تو معطل کر دیتے ہیں ،کیا ایجنسیوں میں کوئی جوابدہ ہے:اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (رضوان قاضی)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے بلوچ لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ وکیل بتا رہی ہیں جس دن وزیر اعظم یہاں بیان دے کر گئے اسی روز ایک بندے کو اٹھا لیا گیا۔

 اس سے پتہ چلتا ہے وزیر اعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں،دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت پیش ہوکر بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ پیش  کی ، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہااس پٹیشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی ، یہ واضح ہے ریاستی عدالتیں کسی دہشتگرد کی پروٹیکشن نہیں کریں گی ، سوال تب اٹھتا ہے جب قانون سے ماورائے کوئی اقدام ہوتا ہے ،ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہاجس دن نگران وزیراعظم اس عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے اسی روز ایک بلوچ طالبعلم اٹھایا گیا تھا ، اگلے دن اس کو راولپنڈی سے چھوڑ دیاگیا ، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاپولیس والوں کو تو آرام سے معطل کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جو کرتے ہیں سب کے سامنے کرتے ہیں ، کیا ایجنسیز میں کوئی جواب دہ ہے خود احتسابی کہاں پر ہے جو نظر آئے ؟ میری رائے جبری گمشدگی کمیشن کے خلاف اسی لئے ہے کیونکہ یہ انہی کے ساتھ بیٹھ کر کام کر رہے ہوتے ہیں جن پر الزام ہوتا ہے ، جو ادارے قانون کے ماتحت ہیں وہ تو ریگولیٹ ہو جاتے ہیں جو قانون سے ماورا کارروائی کرتے ہیں ان کی ریگولیشن کیا ہے ؟ جن کا کوئی پیارا لاپتاہے وہ کوئی عام آدمی، وکیل یا جج کا رشتہ دار ہو، یہ عمل ان کے اندر نفرت پیدا کرتا ہے۔

پولیس تمام اداروں سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ وہ کارروائی سب کے سامنے کرتے ہیں ٹھیک ہو یا غلط ، وفاقی حکومت وزارت دفاع سے پوچھ کر بتا دے ایجنسیز کے اندر کیا خود احتسابی کا عمل ہے ؟ ٹھیک ہے ورکنگ میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں وہ جواب دہ نہیں ،اگر کوئی دہشت گرد ہے تو پرچہ دیں کارروائی کریں لیکن ماورائے عدالت کارروائی نہ کریں، ایجنسیز کا کردار کسی قانون کے تحت ہو گا ؟ جس طرح ایف آئی اے اور دیگر اداروں کا ہے ، ہر ادارے نے اپنے اختیار کے اندر رہ کر کام کرنا ہے ، عدالت نے بھی اپنے اختیار کے اندر رہ کر کام کرنا ہے ، قانون کے مطابق کسی بھی معاملے کو حل کرنے کے ہزار ایشوز ہیں، ایک گھر کا مرد ہے اس کا بھائی لاپتا ہے اس کی ماں بہن بیٹی پر کیا گزر رہی ہے ، ایک کمیٹی بنائی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی آئی بی ، ڈی جی ایم آئی تھے ان سے متعلق بتائیں، اٹارنی جنرل نے کہا اس کے حوالے سے ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا آپ جو آرڈر میں ترمیم کرانا چاہتے ہیں متفرق درخواست دائر کریں اور عدالت کو مطمئن کریں ،ہم نے لاپتہ افراد کے اس معاملے کو حل کرنا ہے ، پٹیشنرز کی وکیل بتا رہی ہیں جس دن وزیر اعظم یہاں بیان دے کر گئے اسی روز ایک بندے کو اٹھا لیا گیا ، اس سے پتہ چلتا ہے وزیر اعظم کے بیان کی کیاحیثیت ہے ، مزیدسماعت 21 مئی تک ملتوی کر دی گئی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں