لاہور،پولیس اور وکلا میں تصادم،گرفتاریاں ،آج ہڑتال

لاہور،پولیس اور وکلا میں تصادم،گرفتاریاں ،آج ہڑتال

لاہور،اسلام آباد(کرائم رپورٹر،کورٹ رپورٹر، اپنے نامہ نگار سے ،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)لاہور میں سول عدالتوں کی منتقلی اور وکلا پر دہشتگردی کے مقدمات کے خلاف وکلا کے احتجاج پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی۔

مظاہرین نے پتھرائو کیا، جی پی او چوک 8گھنٹے میدان جنگ بنارہا ، ایس پی سمیت کئی زخمی،20سے زائد وکلا کو گرفتار کرلیا گیا، پاکستان بار نے آج ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا۔ تفصیلات کے مطابق سول عدالتوں کی ماڈل ٹاؤن کچہری منتقلی اور وکلا کیخلاف مقدمات کے معاملے پر وکلانے ایوان عدل سے لاہور ہائیکورٹ تک احتجاجی ریلی نکالی، احتجاجی مظاہرین نے جی پی او چوک اور ہائیکورٹ کے باہر لگے بیریئرز کو ہٹا دیا اور ہائیکورٹ کے اندر جانے کی کوشش کی، پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل برسائے ، پولیس کی جانب سے احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے واٹرکینن کا بھی استعمال کیا گیا، وکلا کی جانب سے پولیس پر پتھرائو بھی کیا گیا جس کے نتیجے میں ایس پی ماڈل ٹاؤن اخلاق اللہ تارڑ،2 ایس ایچ او سمیت 13 اہلکار زخمی ہو گئے ۔جبکہ وکلا میں مدثر،شہباز علی، فیصل،حق نواز،احمد یار، شہری مختیار بھی زخمی ہوئے ۔ وکلا کی بڑی تعداد نے لاہور ہائیکورٹ میں داخل ہوکر عدالتیں خالی کروانا شروع کردیں اور جسٹس انوار الحق پنوں کی عدالت سے سائلین کو باہر نکال دیا،پولیس کی اضافی نفری بھی صورتحال کو قابو کرنے اور وکلا کو منتشر کرنے کیلئے طلب کرلی گئی ہے ، اینٹی رائٹس فورس کے دستوں کو بھی طلب کرلیا گیا ۔

وکلا مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کے باعث مال روڈ پر ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوا،گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں، جی پی او چوک پر میٹرو بس سٹیشن بھی بند کردیا گیا ،ایس ایس پی آپریشنز لاہور محمد علی رضا نے کہا وکلا کے پتھرائو کے بعد پولیس نے شیلنگ کی، وکلاکو پرامن ریلی نکالنے کی اجازت ہے ، وکلا نے پولیس پر تشدد کیا، قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، قانون کسی کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے ،بعد ازاں پولیس اور وکلا کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے بعد پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ بند کردی تاہم مذاکرات کی کامیابی کی اطلاعات کے باوجود صورتحال کنٹرول میں نہیں آسکی ، جی پی او چوک پر ایک بار پھر پولیس نے وکلا پر لاٹھی چارج شروع کر دیا،پولیس نے وکلا کو واٹر کینن اور شیلنگ سے منتشر کردیا جس کے بعد وکلا جی پی او چوک سے منتشر ہو گئے ، پولیس نے جی پی او چوک خالی کروا کے ٹریفک کی روانی بحال کرادی جبکہ اس دوران 29 وکلا کو پولیس نے گرفتار کرلیا ،تاہم ڈی آئی جی آپریشنز کا کہنا ہے کہ10 سے زائد وکلا کو گرفتار کیا گیا۔پولیس اور وکلا میں تصادم پر تھانہ پرانی انارکلی میں پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا جس میں روڈ بلاک ، بلوہ ،تشدد ، کارسرکار میں مداخلت کی دفعات شامل کی گئی ہیں ۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام میں کہا آئی جی پنجا ب ڈاکٹر عثما ن انو ر کو ہدایت کی ہے کہ وکلا کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کریں، وکلا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے معاملات لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ خوش اسلوبی سے حل کریں، لاہور کے شہریوں کے تحفظ کیلئے محاذ آرائی سے گریز کیا جائے ۔ادھر وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے وکلا کے جائز مطالبات کا احترام کرتے ہوئے معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے پر اتفاق کیا ۔

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا جس میں دونوں رہنماؤں نے وکلا احتجاج سے پیدا ہونے والی صورتحال پربات کی، دونوں رہنماؤ ں نے اتفاق کیا کہ تصادم عوام سمیت کسی فریق کے حق میں نہیں، مسائل کو بات چیت سے حل کرنا ہی دانشمندی ہے ۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پولیس حراست میں موجود وکلا رہا کئے جائیں، وکلا دہشت گرد نہیں۔وکلا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین احسن بھون نے کہا پاکستان بار کونسل نے پورے پاکستان میں آج ہڑتال کی کال دے دی ہے ، ناصرف پورے پاکستان میں ہڑتال ہوگی بلکہ ریلیاں بھی نکلیں گی۔اپنے اعلامیے میں پاکستان بار کونسل نے کہا لاہور میں پرامن وکلا پر پولیس نے شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا، پولیس شیلنگ اور لاٹھی چارج سے مختلف وکلا سمیت ممبر پاکستان بار کونسل احسن بھون بھی زخمی ہوئے ،ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے صدر ریاست علی آزاد کی جانب سے جاری اعلامیہ میں بھی آج ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ پولیس کا وکلا پر بہیمانہ تشدد دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے ، دہشت گردی میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جائیں ،لاہور ہائی کورٹ بار ایسوی ایشن کے تمام فیصلوں کی تائید کرتے ہیں۔واضح رہے کہ وکلا دو وجوہات کی بنا پر سراپا احتجاج ہیں ، پہلی یہ کہ ایوان عدل میں موجود کچھ عدالتوں کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ماڈل ٹائون ڈویژن منتقل کردیا تھا، وکلا کا مطالبہ ہے کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے اور دوسرا یہ کہ دہشتگردی کے مقدمے میں وکلا پر کی جانے والی ایف آئی آرز کو واپس لیا جائے اور مقدمات بنانے سے گریز کیا جائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں