وزیراعظم کا دورہ چین،سی پیک فیز2کے حوالہ سے اہم

وزیراعظم کا دورہ چین،سی پیک فیز2کے حوالہ سے اہم

(تجزیہ:سلمان غنی) سی پیک جسے پاکستان کی معاشی خود انحصاری کی منزل کیلئے اہم قرار دیا جاتا رہا سیاسی اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے 2017 تک نواز شریف کی حکومت بارے عام تاثر یہ تھا کہ اس پر اسکی سپرٹ کے مطابق عمل درآمد اس کو نتیجہ خیز بنائے گا اور سی پیک کے اثرات اور ثمرات پاکستان کی معاشی بحالی اور ترقی کے عمل میں معاون بنیں گے لیکن 2018میں آنے والی سیاسی تبدیلی میں سی پیک کو پذیرائی نہ مل سکی بلکہ اس وقت کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے تو اسے ایک سال تک معطل کرنے کی تجویز دے دی ۔

بعد ازاں اس حکومت کے وزیراعظم سی پیک کے معاہدوں میں بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کرتے نظر آئے ، اسی بنا پر ہی یہ کہا جاتا رہا کہ نواز شریف کی حکومت کے خلاف اصل کیس پاناما نہیں بلکہ سی پیک کا عمل تھا جو بعض قوتوں کو ہضم نہیں ہو پا رہا تھا ، ان کی حکومت کو چلتا کیا گیا ۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان سی پیک کے کریڈٹ کا تنازع بھی رہا ،پیپلز پارٹی اسے صدر آصف زرداری اور ن لیگ اسے شریف قیادت کے کارنامہ سے تعبیر کرتی رہی اور اب جب سے نئی حکومت وجود میں آئی ہے اس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں شامل ہیں اور پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک یہ تاثر نمایاں رہا کہ 2017کے بعد سے جاری سرد مہری کے اثرات اب تک پائے جاتے ہیں۔نئی پیدا شدہ صورتحال میں وفاقی وزیر پلاننگ احسن اقبال اور معاون خصوصی امور خارجہ طارق فاطمی کے دورہ کو پاک چین تعلقات اور خصوصاً سی پیک کے مستقبل کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا رہا ہے ۔احسن اقبال کے دورہ چین سے واپسی پر اس بیان کو الارمنگ قرار دیا جا رہا ہے کہ چین کا اپنے اوپر اعتماد بحال کر رہے ہیں تاکہ سی پیک کا دوسرا فیز شروع کیا جا سکے اس ضمن میں ان کی کوششوں کاوشوں میں کتنی پیش رفت ہوئی اس کا اندازہ آنے والے چند روز میں ہوگا احسن اقبال اور طارق فاطمی کے دورہ کے فوری بعد نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ چین شروع ہے ۔ڈار کی چینی رہنماؤں کے ساتھ سرمایہ کاری کے تناظر میں بعض کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں ہوئی ہیں یہ کس حد تک کارگر ہوں گی یہ بھی آنے والے حالات سے پتہ چلے گا ۔خارجہ ذرائع کا کہنا ہے دو اہم وفاقی وزرا کے دورہ چین کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ چین اہم ہوگا اور ان دوروں میں بعض طے شدہ معاملات کا اعلان شہباز شریف کے دورہ بیجنگ میں ہوگا۔دیکھنا یہ ہوگا آخر کیا وجہ ہے چین اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے حکومت جس کی بحالی کیلئے کوشاں ہے اور دوسرا یہ کہ سی پیک پر اس کی سپرٹ کے مطابق پیش رفت کیونکر نہیں ہو پا رہی ۔

بلاشبہ سی پیک کا منصوبہ صرف پاکستان ہی نہیں خطہ کی معاشی صورتحال کے حوالہ سے اہم ہے اور اس میں چین کا بڑا کردار بعض عالمی قوتوں کو ہضم نہیں ہو پا رہا اور وہ اس حوالہ سے اسلام آباد پر اثر انداز ہو رہی ہیں ۔ آئی ایم ایف سے ہمارے پروگرامز اور امدادی عمل بھی سی پیک کے آڑے آ رہا ہے کیونکہ آئی ایم ایف اپنے ا مدادی عمل کو امریکی منشا سے مشروط رکھتا ہے اور سمجھا یہ جا رہا ہے پاکستان کی علاقائی اہمیت میں سی پیک بڑا کردار ادا کرے گا جس سے پاکستان ہی مضبوط نہیں ہوگا بلکہ چین بھی عالمی و علاقائی صورتحال میں بڑا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوگا لہٰذا پاکستان سی پیک کے حوالہ سے نفسیاتی کیفیت کا شکار ہے ایک طرف چین جیسا آزمودہ دوست اور سی پیک جیسا منصوبہ اور دوسری جانب آئی ایم ایف کا امدادی پروگرام جس نے پاکستان کو دیوالیہ پن سے بچا رکھا ہے اور اس میں جو بھی فیصلہ ہوتا ہے وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی باہم رضامندی سے ہوتا ہے اور اس کا واضح اعلان وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین میں ہوگا ۔خارجہ ماہرین کا کہنا ہے امریکا اور چین کے درمیان پاکستان کا کردار ہی دراصل شہباز شریف حکومت کا بڑا امتحان ہوگا ۔ اگر شہباز شریف حکمت اور دانائی کو بروئے کار لا کر پاکستان کے مفادات کو یقینی بنانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ان کا بھی کریڈٹ ہوگا اور پاکستان کی علاقائی اہمیت و حیثیت بھی بڑھے گی اور ہم معاشی گرداب سے نکل پائیں گے ۔ شہباز شریف کے حوالہ سے چین کو بہت سی توقعات تھیں اور ہیں۔ شہباز شریف کو ‘‘شہباز سپیڈ’’ کا خطاب دینے والے اب شہباز شریف کی سی پیک کے حوالہ سے سپیڈ کے منتظر ہیں۔ان کے دورہ چین کو سی پیک اور سی پیک فیز ٹو کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں