تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے،سلیب میں ردوبدل ممکن:وزیرخزانہ

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے،سلیب میں ردوبدل ممکن:وزیرخزانہ

اسلام آباد(دنیا نیوز،مانیٹرنگ، نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں پر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ آمدن والوں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ ہوگا ،کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے ،تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ۔

 معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن ترجیح ہے ، سب کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔جولائی سے ریٹیلرز اور ہول سیلرز پر ٹیکس لگے گا، اس وقت 90 کھرب روپے نقد زیر گردش ہیں، نقد کی ٹرانزیکشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے کہ کس کے پاس کتنی گاڑیاں اور وہ کتنا بل دیتے ہیں ۔لائف سٹائل کا سارا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے ، اس ڈیٹا کے جائزے کے لیے ٹیم بنائیں گے جو چیک کرے گی ، اس کے بعد فیلڈ ٹیم کو اس پر عمل درآمد کا کہیں گے ۔حکومت جس جس سیکٹر سے نکل جائے اتنا ہی بہتر ہے ، حکومت کو پرائیوٹ سیکٹر کو آگے لانے کے لیے ماحول دینا ہو گا، آئی ایم ایف کے ساتھ جولائی تک سٹاف سطح کا معاہدہ ہونے کی امید ہے ۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی ٹیم کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 13 فیصد تک لے کر جائیں گے ، معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پٹرولیم لیوی پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ عالمی تیل کی کمپنیوں کو دیکھ کر کریں گے ، عالمی تیل کی کمپنیوں کے معاملات کو مانیٹر کر رہے ہیں، نان فائلرز کی اختراع سمجھ نہیں آتی، نان فائلرز کی اختراع شاید ہی کسی اور ملک میں ہو گی، نان فائلرز کے کاروبار اور لین دین پر ٹیکس کی شرح بڑھا رہے ہیں ۔نان فائلرز کے لیے بزنس ٹیکس ٹرانزیکشن میں اضافہ کیا جا رہا ہے جس کا مقصد انہیں بھی ٹیکس نیٹ میں لانا ہے ۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانا ہے ، 10 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو نا قابل برداشت ہے ، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 13 فیصد پر لے کر جانا ہے جس کے لیے مختلف اداروں کو بہتر کرنا ہے ، تنخواہ دار طبقے کیلئے کم ازکم چھوٹ برقرار ہے ، تنخواہ دار طبقے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس 35 فیصد ہے ۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ 31 ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں، ٹیکس کا اطلاق جولائی سے ہو گا، یہ ٹیکس 2022 میں لگ جانا چاہیے تھا، ریٹیلرز اور ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا مقصد بوجھ بانٹنا ہے ، ٹیکس سلیب میں ردوبدل ممکن ہے ، سب کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کی ورک فورس موبلائز ہوئی ہے ، مفتاح اسماعیل نے 2022 میں فکسڈ ٹیکس کی بات کی تھی، آئی ٹی سیکٹر میں نوجوانوں کو سہولیات فراہم کریں گے ، نوجوانوں کو نوکریاں دینی ہیں اور روزگار ان کی ضرورت ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ پی آئی ایس پی کے افراد کو کس بجٹ میں سہولت ملی، ماضی میں بھی کتنے وزرائے خزانہ نے تاجروں کو یقین دہانی کرائی کہ آپ کو سہولیات دیں گے تاجر خود کو رجسٹرڈ کروائیں۔ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ پر 6 لاکھ روپے انکم ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھی ہے ، نان سیلریڈ کلاس میں پروفیشنل کمیونٹی ہے ، اس کے لئے ٹیکس 45 فیصد کیا ہے ، ریٹیلرز اور ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اپریل میں درخواست کی کہ تاجر خود کو رجسٹرڈ کروائیں، یہ رضاکارانہ طور پر رجسٹریشن کا طریقہ تھا، 31ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 3.5ارب ڈالر آئی ٹی کی برآمدات ہیں، ایس ایم ایز کے لئے مطلوبہ فنانسنگ میسر نہیں ہوئی، نقد کی ٹرانزیکشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں، 3.5ارب ڈالر آئی ٹی کی برآمدات ہیں، ایس ایم ایز کے لئے مطلوبہ فنانسنگ میسر نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ گورنر سٹیٹ بینک کے ساتھ بینک نئی سکیمز لائیں گے ، زرعی شعبے کی فنانسنگ بڑھائی جائے گی، فری لانسر اور ایس ایم ایز کے لئے فنانسنگ پر کام کررہے ہیں، ایکسپورٹ ری فنانس کی سہولت ایگزم بینک منتقل کر رہے ہیں، پی ایس ڈی پی میں جاری منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا۔

وفاقی وزیرِ خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں دنیا کی تیسری بڑی فری لانسر پاپولیشن ہے ، آئی ٹی سیکٹر کے لیے بہت بڑی رقم مختص کی ہے ، مختص رقم سے آئی ٹی سیکٹر میں انفراسٹرکچر بہتر کیا جا سکے گا، سیلز ٹیکس میں بہت بڑی لیکیج ہے جس کو پلگ کرنا ہے ، سیلز ٹیکس سے متعلق ترجیح ہے کہ اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹلائز کریں، انہوں نے کہا کہ ٹیکسز لیکیج کو کم کرنے کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لایا گیا جس کا مقصد تمباکو اور سیمنٹ سمیت ہر شعبے میں ٹیکس چوری روکنا تھا۔ اورنگ زیب نے کہا کہ پٹرولیم لیوی میں فوری طور پر اضافہ نہیں ہو رہا، پٹرولیم لیوی کو مرحلہ وار بڑھایا جائے گا، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کو مدِ نظر رکھا جائے گا۔ آئندہ مالی سال کیلئے حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے مختص رقم کو 27 فیصد اضافے کے ساتھ 593 ارب روپے تک لے جائے گی۔اس موقع پر وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ شہباز شریف نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ کٹھن ضرور ہے ناممکن نہیں، عام آدمی کو مہنگائی سے پہنچنے والی تکلیف کا احساس ہے ۔علی پرویز ملک کا کہنا تھا تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس نیٹ نہ بڑھاتے تو ٹیکس کس پر لگاتے ؟ مقدس گائے وہ ہوتی ہے جو سسٹم سے باہر نکل کر آمدنی پیدا کر رہی ہو اور ٹیکس نہ دے رہی ہو، پاکستان کے علاوہ ارجنٹینا کی حکومت بھی آئی ایم ایف کے پاس قرض لینے جاتی ہے ۔ علی پرویز نے کہا کہ ڈیجیٹلائزیشن کے بعد نان فائلرز سے ٹیکس بھی لیا جائے گا اور پوچھا بھی جائے گا۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے کہا کہ تنخواہوں میں اضافہ بنیادی تنخواہ پر ہو گا۔ جن خود مختار اداروں اور کارپوریشنوں نے حکومتی پے سکیل کا اطلاق کر دیا ہے اضافے کا اطلاق ان پر ہو گا ،تاہم جن خود مختار اداروں کارپوریشنوں کے اپنے پے سکیل ہوں گے وہ اپنے طریقہ کار کے مطابق اس پر عمل کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ نے ای او بی آئی ایک خود مختار ادارہ ہے ، پنشن میں اضافے کا فیصلہ وہ خود کرے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں