مخصوص نشستیں:سماعت مکمل ،فیصلہ محفوظ،کب سنایا جائیگا کچھ نہیں کہہ سکتے :چیف جسٹس

مخصوص نشستیں:سماعت مکمل ،فیصلہ محفوظ،کب سنایا جائیگا کچھ نہیں کہہ سکتے :چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ دنیا،دنیا نیوز)سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ فیصلہ کب سنایا جائے گا۔

 ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے ،چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب الجواب میں کہا مؤقف اپنایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کرائی جبکہ 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن 3 مخصوص نشستیں ملیں، الیکشن کمیشن نے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق بے ایمانی پر مبنی جواب جمع کرایا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا بھول جائیں الیکشن کمیشن نے کیا کہا؟ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے مطابق تھا؟ فیصل صدیقی نے کہا الیکشن کمیشن کا فیصلہ بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق قانون پر مبنی تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق مخصوص نشستوں کا فیصلہ چیلنج کیا؟جسٹس عرفان سعادت نے سوال کیا کہ کیا بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبرپختونخوا انتخابات میں حصہ لیا؟ وکیل نے کہا بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبرپختونخوا انتخابات میں حصہ لیا لیکن سیٹ نہیں جیتی۔جسٹس عرفان سعادت نے کہا آپ کا کیس مختلف ہے ، سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، ابھی دلائل دیں لیکن بعد میں تفصیلی جواب دیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سیاسی پارٹی اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہوتا ہے ، پارلیمنٹ کے اندر جو فیصلے ہوتے ہیں وہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے ، ایسے فیصلے سیاسی پارٹی نہیں کرسکتی، پارلیمانی پارٹی پولیٹیکل پارٹی کا فیصلہ ماننے کی پابند نہیں، جیسے وزیراعظم کو ووٹ دینا ہو تو پارلیمانی پارٹی پابند نہیں کہ سیاسی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کرے ۔باپ پارٹی! نام عجیب سا ہے ! جسٹس جمال مندوخیل کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے مزید دریافت کیا کہ اگر کوئی پارٹی باقی صوبوں میں سیٹ لے اور ایک صوبے میں نہ لے تو کیا ہوگا؟ وکیل نے جواب دیا بلوچستان عوامی پارٹی نے دیگر صوبوں میں سیٹ جیتی خیبرپختونخوا میں کوئی سیٹ نہیں لی، الیکشن کمیشن کا غیر شفاف رویہ ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ جوڈیشل نوٹس لے ؟ اگر نہیں تو ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے حوالے سے کیس لیں تو لے لیتے ہیں لیکن سپریم کورٹ 2018 انتخابات پر انحصار نہیں کرے گی۔ فیصل صدیقی نے کہا اگر الیکشن کمیشن امتیازی سلوک کر رہا تو سپریم کورٹ دیکھے ،چیف جسٹس نے کہا یعنی 2018 میں الیکشن کمیشن ٹھیک تھا؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی تشریح کی پابند ہے ؟ آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا، کیا 2018 کے انتخابات درست تھے ؟ فیصل صدیقی نے کہا عدالت کہہ رہی تھی مداخلت کیوں کریں، میں وہ وجہ بتا رہا ہوں، عدالت الیکشن کمیشن کے غیر منصفانہ اقدامات کو مدنظر رکھے ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آئین میں اقلیتوں کی شمولیت پر پابندی ہے ۔اسی کے ساتھ فیصل صدیقی نے جے یو آئی (ف) کی رکنیت پر مبنی جماعتی آئین پیش کر دیااور بتایا جے یو آئی (ف) کو اقلیتی نشست بھی الاٹ کی گئی ہے ۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کامران مرتضیٰ اس پر وضاحت دے چکے ہیں کہ مس پرنٹ ہوا تھا، فیصل صدیقی نے کہا کامران مرتضیٰ کی وضاحت ہوا میں ہے ، جے یو آئی (ف) کی ویب سائٹ سے آئین ڈاؤن لوڈ کیا ہے ،چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل میں صرف سنی شامل ہو سکتے ہیں؟ وکیل نے کہاسنی اتحاد کونسل میں تمام مسلمان شامل ہو سکتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا باقیوں کو آپ مسلمان سمجھتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا اس اعتبار سے سنی اتحاد کونسل کو کوئی نشست نہیں ملنی چاہیے ، سنی اتحاد کی کوئی جنرل سیٹ نہیں تو آپکے دلائل کے مطابق مخصوص نشست کیسے مل سکتی ہیں؟ وکیل نے کہا مخصوص نشستیں غیر متناسب نمائندگی کے اصول کے مطابق نہیں دی جا سکتیں، جنہیں آزاد کہا جا رہا ہے وہ آزاد نہیں ۔چیف جسٹس نے کہا آپ اپنے خلاف ہی دلائل دے رہے ہیں، وکیل نے کہا میں آپ کو قائل نہیں کر سکا یہ الگ بات ہے لیکن ہمارا کیس یہی ہے جو دلائل دے رہا ہوں۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپکے دلائل مان کر نشستیں پی ٹی آئی کو دے سکتے ہیں؟ وکیل نے کہا سنی اتحاد کونسل پارلیمان میں موجود ہے ، نشستیں اسے ملیں گی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ووٹ اور ووٹرز کے حق پر کوئی دلائل نہیں دے رہا، الیکشن کمیشن اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کیلئے ڈیٹا نہیں دے رہا کہ انتخابات شفاف ہوئے ، ایک سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر کیا گیا، آرٹیکل 51 سیاسی جماعتوں کے حقوق یقینی بناتا ہے ، سال 2018 کے انتخابات پر بھی سوالات ہیں، کیا وہی کچھ دوبارہ کرنے دیں کیونکہ 2018 میں بھی سوالات الیکشن کمیشن پر اٹھے تھے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مخصوص نشستوں کی تقسیم کے وقت شاید سنی اتحاد والے آزاد تھے ، فیصل صدیقی نے کہا مخصوص نشستوں کے وقت بھی آزاد امیدوار سنی اتحاد کا حصہ بن چکے تھے ۔ الیکشن کمیشن اسی وقت کہہ دیتا آپ سنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہو سکتے ، الیکشن کمیشن کا مسلسل ایک ہی مؤقف رہتا تو بات سمجھ آتی۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا فیصل صدیقی آپ کی جماعت کو تو بونس مل گیا، آپ کی جماعت نے الیکشن نہیں لڑا اور 90 نشستیں مل گئیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا الیکشن نارمل حالات میں اور شفاف ہوئے تھے ؟ ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے امیدوار دوسری جماعت میں کیوں بھیجنے پڑے ؟فیصل صدیقی نے کہا الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت کا ممبر ہے تو اسی سیاسی جماعت کا نشان اسے ملنا چاہیے ، کسی سیاسی جماعت کو چھوڑے بغیر نئی جماعت میں شمولیت نہیں ہوسکتی۔اسی کے ساتھ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب الجواب مکمل کر لئے ۔بعدازاں آزاد امیدواروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے روسٹرم پر آ کر دلائل دیتے کہا الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق ہمیں آزاد امیدوار مانا جائے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں جس میں تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا ہو۔جسٹس علی مظہر نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ آپ کا اپنا ڈیکلیریشن بھی پی ٹی آئی نظریاتی سے ہے ؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا تحریکِ انصاف نظریاتی کا ٹکٹ منٹوں میں واپس بھی لے لیا تھا، الیکشن کمیشن نے اپنا ہی ریکارڈ دبانے کی کوشش کی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیس بہت اہم ہے ، سنجیدہ سوالات الیکشن کمیشن کی ذمے داری پر اٹھے ہیں، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سامنے ریکارڈ دبانے کی کوشش کی، جسٹس شاہد وحید نے کہاکسی زمانے میں حکومت اور آئینی ادارے نیک نیتی سے فریق بنتے تھے ، اب تو الیکشن کمیشن مقدمہ ہر صورت جیتنے آیا ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں چاہیے ؟ وکیل نے بتایا مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کی بنتی ہیں، پارٹی میں شمولیت کیلئے جنرل نشست ہونا لازمی قرار دینا غیرآئینی ہے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا عدالت کو انتخابی عمل میں ہونے والی غلطیوں کی تصحیح نہیں کرنی چاہیے ؟ سلمان اکرم نے بتایا عدالت آئین پر عملدرآمد کیلئے کوئی بھی حکم جاری کر سکتی ہے ۔اسی کے ساتھ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہونے پر فل کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، چیف جسٹس نے کہا فیصلہ کب سنایا جائے گا ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے ، فیصلہ سنانے سے متعلق آپس میں مشاورت کریں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں