بجلی بل پر غصہ، حالات حکومتی کنٹرول میں رہنے والے نہیں

بجلی بل پر غصہ، حالات حکومتی کنٹرول میں رہنے والے نہیں

(تجزیہ: سلمان غنی) بلاشبہ آئی ایم ایف کی شرائط انتہائی کڑی ہیں اور حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی ماننا پڑ رہی ہیں اور ان شرائط کا دباؤ اتنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے۔

حقیقت یہی ہے امور مملکت چلانے کیلئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہماری تاریخ یہی ہے کہ ہر بار متعدد بار حکومتوں کی جانب سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ  کے عزم کے باوجود ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہوتا ۔ ہر بار یہ بوجھ تنخواہ داروں کی تنخواہوں پر پڑتا۔ حقیقت یہی ہے کہ نئے نئے قرضوں سے نہ معیشت میں بہتری آئی ہے اور نہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکا ہے آج جب قوم پر پڑنے والے بجلی اور مہنگائی کے لوڈ سے چیخیں نکل رہی ہیں تو ان میں سے کچھ یہ پوچھتے بھی نظر آتے ہیں مالیاتی اداروں سے ملنے والے اربوں کھربوں کے قرضے کن پر کب اور کہاں خرچ ہوئے ،خود وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ناصر کھوسہ کی قیادت میں کفایت شعاری مہم کے خدوخال تیار کروائے گئے مگر مراعات پر قدغن کا یہ سلسلہ خود وزراء تک محدود رہا مگر معاشرے کی مراعات یافتہ طبقات کی عیاشیوں پر پابندی نہ لگائی جا سکی،بجلی بلوں پر ایک طرف عوام کے اندر شدید ردعمل ا ور غصہ ہے تو دوسری طرف حکمران ٹولہ اور اشرافیہ کیلئے سہولتیں ہیں ۔ یہ رحجان حالات کو کسی اور جانب لے جاتا نظر آ رہا ہے ۔حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ نوبت تنگ آمد بجنگ آمد کی ہے ، اس صورتحال میں نجات کا ایک ہی آپشن ہے کہ حکمران طبقہ اور اشرافیہ اس صورتحال سے صرف نظر برتنے کی بجائے قربانی دے ۔ حکومت عوام پر بجلی اور گیس کا لوڈ کم کرے انہیں جینے کا حق دے ان کی حالت زار پر رحم کھائے اور اگر بات بیانات اعلانات تک محدود رہتی ہے اور عوام حالات کے رحم و کرم پر کھڑے نظر آئیں گے تو پھر نوشتہ دیوار یہی ہے کہ صورتحال ایسے چلنے والی نہیں ۔ حالات کے رخ کا حکمران سامنا نہیں کر پائیں گے ، ان کے پاس اس حوالے سے وقت بہت کم اور غلطی کی گنجائش نہیں اور آج کے حالات میں اگر عوام کے اندر پیدا شدہ ردعمل اور غم و غصہ کی کوئی ایک وجہ تلاش کی جائے تو وہ بجلی کے بل ہیں جنہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے کوئی طبقہ ایسا نہیں جو بجلی کے بلوں سے پریشان نہ ہو۔ سوائے ان کے جو بجلی اور گیس کے بل خود ادا نہیں کرتے بظاہر حکومت اور ذمہ داران بجلی کے بلوں کے ایشو پر پریشانی کا اعتراف تو کر رہے ہیں لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ معاملات ان کے کنٹرول میں رہنے والے نہیں ،حکمران اپنے مجرمانہ کردار کو آئی ایم ایف پر ڈال کر بری نہیں ہو سکتے ، وہ بتائیں کہ ٹیکس نیٹ کیوں نہیں بڑھا ، یا زرعی ٹیکس کا نفاذ کیوں نہیں ہوا حکمرانوں کی عیاشیوں پر قدغن کیوں نہیں لگی مالیاتی ڈسپلن قائم کیوں نہیں ہوا ؟۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں