’’بلاشبہ افسر شاہی کے اخراجات اور مراعات قومی خزانہ پر بوجھ ‘‘

’’بلاشبہ افسر شاہی کے اخراجات اور مراعات قومی خزانہ پر بوجھ ‘‘

(تجزیہ: سلمان غنی) ملکی معیشت اور قومی خزانہ کے حوالہ سے پیدا شدہ صورتحال اس وقت ریاست کو درپیش چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ ماضی کے ادوار میں بروقت معاشی حوالہ سے اٹھائے جانے والے اقدامات نہ ہونے کی صورت میں آج ملک قرضوں تلے دبا ہوا ہے اور افسوس یہ ہے۔

 کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لینے پڑ رہے ہیں اورذمہ دار ذرائع کے مطابق آج کی صورتحال میں ہمیں اپنی معاشی بحالی کیلئے فوری طور پر 6ارب ڈالرز کی ضرورت ہے اور فی الوقت اس کا بندوبست نہیں ہو پا رہا ،اس پس منظر میں ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے میں سنجیدہ نہیں اورکفایت شعاری کیلئے قائم کمیٹی سے استعفے ٰدے دیا ۔ان کے اس استعفے کے اعلان پر حکومتی ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے ان کے اس بیان کو رابطے یا سمجھ بوجھ کے فقدان کا عمل قرار دیا اورکہا کہ صرف گریڈ 16تک نہیں بلکہ گریڈ 22تک تمام سرکاری عہدوں کو رائٹ سائز کیا جا رہا ہے اور رائٹ سائزنگ کے پہلے مرحلہ میں چھ وزارتوں اور اداروں کاجائزہ لیا گیا ایک وزارت ختم اور دو وزارتوں کو ضم کیا جا رہا ہے ،انہوں نے دیگراقدامات کا بھی بتایا ۔حکومت کی وضاحت اپنی جگہ لیکن اس امر کا جائزہ ضروری ہے کہ آخر کفایت شعاری کیلئے کمیٹی کی ضرورت کیونکر محسوس ہوئی اور انہوں نے قومی خزانہ پر پڑنے والے بوجھ کے تدارک کیلئے متعدد اقدامات تجویز کئے ،جس میں مالی اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ اہم اور بڑے سرکاری مناصب پر تعینات اور اہم طبقات کو ملنے والی بعض سہولتوں جن میں بجلی گیس پٹرولیم سمیت مختلف شامل تھیں۔

ان کے سدباب کی سفارش کردی ، لیکن شاید حکومت بلاتفریق اور بلاامتیاز اس پر عمل درآمد نہ کر سکی۔حقائق بڑے تلخ ہیں مختلف ادوار میں بننے والی حکومتوں نے ملکی خزانہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عیاشیوں کا اپنا لامتناہی سلسلہ جاری رکھا کہ جس سے معیشت بھی بگڑتی نظر آئی ،خزانہ بھی متاثر ہوا اور یہاں تک کہ خود حکومتی اخراجات اور دیگر عیاشیوں کیلئے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا گیا اس حوالہ سے یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال میں پاکستان میں اشرافیہ اور حکمران ٹولہ کی عیاشیوں پر ساڑھے سترہ ارب ڈالرز خرچ ہوتے ہیں اور ہر حکومت برسراقتدار آنے کے بعد یہ کہتی نظر آتی ہے کہ وہ اپنے انتظامی اخراجات میں کمی لائے گی لیکن ہر حکومت کی رپورٹ اٹھاکر دیکھ لیں تو اس کے دور میں انتظامی اخراجات اور خصوصاً قرضوں میں اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں آئی ۔دوروزقبل مسلم لیگ ن کے ذمہ داران کے اجلاس میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت کو عوام کی ریلیف کیلئے اپنے انتظامی اخراجات اور عیاشیوں میں کمی لانی چاہئے ، حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف جو چاہتے ہیں وہ عملاً نہیں ہو رہا اور خود ان کی جانب سے کفایت شعاری مہم کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے اور ا سی بنا پر ڈاکٹر قیصر بنگالی جیسی کریڈبل شخصیت اور ماہر معیشت نے اپنا استعفیٰ دیا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ اس کفایت شعاری کمیٹی کے دیگر اراکین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف نے جس جوش جذبہ اور حب الوطنی کے تقاضوں کے پیش نظر ہنگامی بنیادوں پر اس مہم کو تیار کروایا تھا اس پر اس سپرٹ کے مطابق عمل نہیں ہوا۔کفایت شعاری کمیٹی کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف تو بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن افسوس اس مہم کے تحت سفارشات پر 25فیصد سے زائد عمل نہ ہو سکا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں