سیاسی قیادت شورش ختم کرنے کو تیارہوگی؟

سیاسی قیادت شورش ختم کرنے کو تیارہوگی؟

(تجزیہ: سلمان غنی) مسلح افواج کے ترجمان کی جانب سے سکیورٹی معاملات دہشت گردی کے رجحانات ان کے سد باب کیلئے اقدامات سمیت خصوصاً بلوچستان کی صورتحال پر بریفنگ کا عمل حقائق سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ حقیقت پسندانہ اور بروقت ہے۔

بلا شبہ موجودہ حالات میں دہشت گردی کے رجحانات ظاہر کر رہے ہیں کہ کوئی خاص مائنڈ سیٹ منظم انداز میں ہمارے دو صوبوں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سرگرم عمل ہے ۔ اس کا مقصد اس کے سوا کوئی نہیں کہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے تاکہ پاکستان کے معاشی مستقبل کے حوالے سے حکومتی منصوبوں خصوصاً سی پیک کے عمل اور گوادرکی بندر گاہ کا فعال کردار سامنے نہ آسکے اور اس عمل میں اندر ونی گروہوں کے پیچھے غیر ملکی ا سلحہ اور بھارتی فنڈنگ ڈھکی چھپی نہیں ۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ بیان اس حوالے سے اہم ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں کوئی نو گو ایریا نہیں اس جواب سے خود ان اہل سیاست کے آگے سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے جو یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ متعدد علاقوں میں حکومتی رٹ نہیں اور مسلح افراد راج کرتے نظر آرہے ہیں ۔

فوجی ترجمان نے دہشت گردوں کو چیلنج کیا کہ ہمت ہے تو ہم سے مقابلہ کرو نہتے اور معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیلنا مردانگی نہیں ان کا یہ عزم ظاہر کرتا ہے کہ فوج پر عزم ہے کہ دہشت گردوں کو بھی ان کے انجام تک پہنچانا ہے اور دہشت گردی کی جڑیں بھی کاٹنا ہیں ۔ جہاں تک ان عناصر کے جھوٹ پر مبنی بیانیہ کا تعلق ہے تو اس کا مقابلہ فوج نہیں سویلین لیڈر شپ کو کرنا ہے ، دہشت گردوں کو بے نقاب کرنا سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے ،اس حوالے سے قومی لیڈر شپ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگاکیا وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کو تیار نہیں کیونکہ فوج وہی ہر محاذ پر سرخرو ہوتی ہے جس کے پیچھے قوم کھڑی ہو،جبکہ قوم کے اندر جذبہ اور ولولہ پیدا کرنا سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے ،کیا سیاسی قیادت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پیدا شدہ شورش کے خاتمہ کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوگی یہ بڑا سوال ہے جس کا جواب آنا ضروری ہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں