کار ساز حادثہ کیس:اللہ کے نام پر معاف کردیا:ورثا،ملزمہ نتاشا کی ضمانت منظور
کراچی (سٹاف رپورٹر) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ایسٹ شاہد علی میمن نے کارساز حادثہ کیس کی ملزمہ نتاشا کی ایک لاکھ روپے کی ضمانت منظور کرلی،عدالت نے ملزمہ کے شوہر دانش اقبال کی ضمانت کی بھی توثیق کردی ۔
تفصیلات کے مطابق کارساز حادثہ کیس میں ملزمہ نتاشا اور اسکے شوہر کی ضمانت کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تومدعی مقدمہ ، مرنے والے افراد کے اہل خانہ اور تمام وکلاء عدالت میں پیش ہوئے ۔ وکیل صفائی نے بتایاکہ اہل خانہ اور ملزموں کے درمیان صلح ہو گئی جس کی کاپی جمع کرادی گئی ہے ۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا صلح میں شامل تمام لوگ عدالت میں موجود ہیں۔عامر منصوب قریشی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ اور دیگر موجود ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا زخمی ہونے والے افراد کے درمیان بھی صلح ہوگئی ہے ۔وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ جن فریقین کے درمیان صلح ہوئی ہے وہ تمام لوگ یہاں موجود ہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ اس طرح صلح کرنے سے آپ لوگوں کو اللہ کے سامنے بھی جواب دہ ہونا ہوگا، آپ لوگوں کی جانب سے یہ صلح نامہ کسی دباؤ میں تو نہیں کیا جارہا۔اہل خانہ نے بتایا کہ ہم نے اللہ کے نام پر معاف کیا ہے کسی کا کوئی دباؤ نہیں۔ مدعی مقدمہ کے وکیل بیرسٹرعزیر غوری نے موقف اختیار کیا کہ ہم عدالت میں درخواست ضمانت پر دلائل دینے کے لئے آئے ہیں، عدالت آنے پر سرپرائز ملا کہ فریقین کے درمیان صلح ہوگئی ہے ۔
وکلا کے دلائل کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت کچھ دیرکیلئے ملتوی کردی۔ بعدازاں عدالت اوپن کورٹ میں فریقین اور ان کے وکلا کی موجودگی میں فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ ملزموں اور مرنے والے عمران عارف اورآمنہ عمران کے اہل خانہ نے حلف نامے کے ذریعے بتایا ہے کہ انہوں نے بغیرکسی دباؤ کے اللہ کے نام پر معاف کردیاہے ۔جبکہ وقوعہ میں زخمی ہونے والے تینوں افراد نے بھی درخواست ضمانت پر اعتراض نہیں کیا، لہذا ملزمہ نتاشاکی ایک لاکھ روپے کی ضمانت منظورکی جاتی ہے اور ملزم دانش اقبال کی عبوری ضمانت کی توثیق کی جاتی ہے ۔ اہل خانہ کے وکیل طاہر اقبال ملک نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صلح کی شرائط کے حوالے سے مجھے نہیں معلوم ، عدالت میں جو حلف نامہ جمع کرایا اس میں کہا ہے اللہ کی رضا کے لئے معاف کیا ہے ، ملزمہ کے اہل خانہ کا یہی کہنا تھا کہ یہ ایک حادثہ تھا جو انجانے میں پیش آیا انہیں معاف کردو، اگر کیس چلتا بھی اور معاملہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی جاتا تو فیصلہ ہونے میں 8 سال تک لگ جاتے ، اس کیس میں سزا بھی دیت ہی ہونی تھی ،اس میں سزا نہیں ہے ۔