علی امین گنڈا پور وکٹ سے باہر آکر کھیل رہے ہیں
(تجزیہ: سلمان غنی) خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے افغانستان سے خود بات چیت کرنے کے اعلان نے اسلام آباد کو پریشان کردیا ہے ، ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ آئین پاکستان سے انحراف کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک سے بات چیت کا عندیہ دیتا نظر آرہا ہے ۔
ایسا کیوں ہے کیا یہ انکا اپنا بیان ہے یا ان کی جماعت کا پروگرام ۔ موجودہ حالات میں وہ ایسی بات کر کے کیا پیغام دینا چاہتے ہیںْْ؟ ۔لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دراصل علی امین گنڈا پور وکٹ سے باہر آکر کھیل رہے ہیں۔ افغانستان سے خود بات چیت کے اعلان کو بھی ان کی جماعت کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جاسکتا ہے ۔ طالبان کے سیاسی کردار کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی کا سائیڈ کارنر اور ان کی بہادری اور غیرت مندی کو سراہنے کا عمل سیاسی تاریخ کا حصہ ہے ، خود ان کے دور میں پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی کے ذمہ داروں کی واپسی کے حوالہ سے ان کا کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں ۔دہشت گرد بارڈر کے دونوں طرف اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی لیڈر شپ نے کبھی اس مذموم عمل پر انہیں ٹارگٹ نہیں کیا ۔ اب خود پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین بھی ان سے مذاکرات کے خواہاں ہیں ۔لہٰذا بڑا سوال تو یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا پختونخواایک الگ سے ملک ہے ، جو افغانستان سے مذاکرات چاہتا ہے یا وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے ہیں کہ انہیں اپنے دائرہ کار کا نہیں معلوم ۔
وہ خود کو آئین و قانون کا پابند نہ مانتے ہوئے چوکے چھکے لگاتے نظر آتے ہیں ، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ۔ ایک صوبہ کا وزیر اعلیٰ اگر پختون میکنزم کی بات کرتا نظر آتا ہے اور ازخود افغانستان سے مذاکرات کا خواہاں ہے تو پھر اسے اس ایجنڈے کے تحت دیکھا جاسکتا ہے اس حوالہ سے خود اسلام آباد کو سنجیدگی ظاہر کرنی چاہیے ۔ پارلیمنٹ کے اندر پارلیمنٹ کی عزت وتکریم کیلئے کمیٹی کے اجلاس میں اس پر بات ہونی چاہیے تھی اور کمیٹی کے اراکین کو اس بیان کی واپسی کو بھی یقینی بنانا چاہیے تھا ، خود تحریک انصاف کے اندر آئین و قانون کے علمبرداروں سے بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا ایک صوبہ کے وزیر اعلیٰ کو خارجہ پالیسی جیسے حساس معاملہ اور خصوصاً افغانستان سے براہ راست مذاکرات کی بات کرنی چاہیے تھی لیکن شاید ایسا نہ ہوسکے کیونکر بانی پی ٹی آئی اپنے طرز عمل سے پارٹی کو پیغام دے چکے ہیں کہ ان کی مکمل تائید وزیر اعلیٰ پختونخواکو حاصل ہے ۔اس حوالہ سے اب وزیر اعلیٰ پختونخوا کے اس بیان پر بانی پی ٹی آئی کا موقف بھی آنا ضروری ہے ۔ افغانستان کے لیے ایک مرتبہ پھر بانی پی ٹی آئی اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈالتے نظر آئیں گے کیونکہ جماعت میں ان کا ہاتھ اب انہیں کے سر پر ہے اور وہ حقیقی معنوں میں ان کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔