اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ ختم کرنیکا اعلان،پی ٹی آئی بندگلی میں
(تجزیہ:سلمان غنی) اسلام آباد میں تحریک انصاف کے جلسہ کا انعقاد اور اس حوالہ سے پیدا کی جانے والی رکاوٹوں اورگرفتاریوں کے بعد لاہور کا جلسہ پنجاب حکومت اور تحریک انصاف دونوں کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گیاہے تحریک انصاف کے ذمہ داران ہر قیمت اور ہر حالت میں لاہور میں جلسہ کے انعقاد کا عزم ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں اور حکومت کو للکارتے ہوئے بھی یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ حکومت اجازت دے یا نہ دے 21ستمبر کو لاہور کا جلسہ ضرور ہوگا۔
ابھی تک اس حوالہ سے پنجاب حکومت یا لاہور انتظامیہ کا کوئی باقاعدہ موقف تو سامنے نہیں آیا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ جلسہ براہ راست وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور ان کی انتظامی مشینری کیلئے امتحان ہوگا مگر اصل سوال یہی ہے کہ کیا 8ستمبر کو سنگجانی جلسہ کے بعد حکومت آئندہ تحریک انصاف کو جلسہ کی اجازت دے گی اور کیا پی ٹی آئی لاہور میں طاقت کا مظاہرہ کر پائے گی جہاں تک تحریک انصاف کے موجودہ حالات میں سیاسی کردار کا تعلق ہے تو خود بانی پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے بھی روابط ختم کرنے کے اعلان نے خود پی ٹی آئی کو پھر سے بند گلی میں داخل کر دیا ہے اور 8ستمبر کے جلسہ کے حوالہ سے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غیر محسوس انداز ڈائیلاگ اور روابط کا تا ثر بھی جلسہ کے ضمن میں پیدا شدہ حالات اور خود وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ریاست ریاستی اداروں سیاسی مخالفین میڈیا اور خواتین کے حوالہ سے بیانات نے زائل کر کے رکھ دیا ہے۔
جس کے نتیجہ میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی گرفتاریوں کے عمل نے جلتی پر تیل کا کام کر ڈالا اور باوجود میثاق پارلیمنٹ کے سیاسی محاذ پر تناؤ اور ٹکراؤ کی کیفیت موجود ہے جس کا بڑا ثبوت اب پی ٹی آئی کی جانب سے ان کا لاہور کا عوامی شو ہے اور وہ جلسہ کے انعقاد سے قبل ہی یہاں ایسی کیفیت طاری کرنا چاہتے ہیں کہ جلسہ نہ بھی ہو تو یہ تاثر قائم ہو سکے کہ پی ٹی آئی کو جمہوری عمل اور خصوصاً عوام سے رابطہ میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں اور خود پی ٹی آئی کے ایک ذمہ دار ذریعہ کا کہنا ہے کہ ہم نے لاہور میں اپنی طاقت کے مظاہرے کی ممکنہ کوشش کرنا ہے لیکن اگر انہیں جلسہ نہ بھی کرنے دیا گیا تو ہم کم از کم ایک ہفتہ اس پر کھیلنے کی پوزیشن میں ہوں گے یعنی کہ اس حوالہ سے متبادل حکمت عملی طے کر رکھی ہے لیکن پنجاب اور خصوصاً لاہور میں پی ٹی آئی کے جلسہ کے انعقاد اور تیاریوں کا جائزہ لیا جائے تو فی الحال تو ابھی باقاعدہ سرگرمیاں شروع ہیں اور ویسے بھی دیکھا جائے تو پختونخوا کی طرح پنجاب کے سیاسی محاذ پر بھی پی ٹی آئی تنظیمی بحران سے دوچار ہے اور پنجاب کی سطح پر لیڈر شپ خصوصاً حماد اظہر میاں اسلم اقبال سیاسی منظر سے غائب ہیں تو ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید ،اعجاز چودھری و دیگر جیلوں میں بند ہیں اور بظاہر یہ پنجاب کے سیاسی محاذ پر کوئی بھاری بھر کم شخصیت سرگرم عمل نظر نہیں آ رہی اس کیفیت میں کیا تحریک انصاف لاہور میں جلسہ کا بندوبست کر پائے گی اور انتظامی مشینری تحریک انصاف کو جلسہ کی اجازت دے پائے گی فی الحال ایسے امکانات محدود اور مسدود نظر آ رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کی سیاسی اور قانونی للکار کا دباؤ اتنا زیادہ ہے۔
کہ پی ٹی آئی اگر جلسہ کا فیصلہ کر لیتی ہے اور اجازت نہ ملنے کے باوجود بھی وہ یہاں ایک ہنگامی اور غیر معمولی صورتحال ضرور طاری کر پائے گی اور اس کی وجہ خود تحریک انصاف کی مقبولیت ہیں بلکہ خود حکومتی کارکردگی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کا عمل ہے جس نے عوام میں ردعمل اور نوجوانوں میں غصہ پیدا کر رکھا ہے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ رکاوٹوں کے باوجود اگر پی ٹی آئی سنگجانی میں جلسہ کرنے میں کامیاب رہی تو لاہور میں بھی وہ اس کیلئے ممکنہ کوشش ضرور کرے گی۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سنگجانی کے بعد لاہور کے جلسہ کی اجازت کا فیصلہ انتظامی مشینری کا نہیں کہیں اور ہوگا اور جلسہ کی اجازت اس حوالہ سے ٹمپو کی بنیاد پر ہوگا کہ پی ٹی آئی اپنی تنظیمی و سیاسی طاقت کو بروئے کار لا پائے گی ۔ تجزیہ کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی لاہور کے مقام پر کسی بڑے عوامی شو کی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہی اور اس کی بڑی وجہ سیاسی تنظیمی و سیاسی لیڈر شپ کے فقدان کے ساتھ وسائل کی فراہمی بھی ہے البتہ پنجاب حکومت خصوصاً انتظامی مشینری اس جلسہ اس کی سرگرمیوں اور اس کی تیاریوں کو ابھی سے سنجیدگی سے لے رہی ہے اور انتظامی مشینری اور اداروں کی رپورٹس پر ہی لاہور کے جلسہ کی اجازت کا فیصلہ ہوگا۔