آئینی ترامیم پر اتفاق نہ ہوسکا، قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی

آئینی ترامیم پر اتفاق نہ ہوسکا، قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی

اسلام آباد(سٹاف رپورٹراپنے رپورٹر سے،نامہ نگار،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت مولانا فضل الرحمن کو منانے میں ناکام،مجوزہ آئینی ترامیم پر اتفاق نہ ہوسکا، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس آئینی ترمیمی بل پیش کئے بغیر غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دئیے گئے۔۔۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وفد کے ہمراہ جے یوآئی سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی، پھر وزیراعظم شہباز شریف سے ملے ،ملاقات میں اتفاق کیاگیاکہ بلاول اور پارٹی کے دیگر سینئر رہنما بھی مشاورت میں اپنا کردار ادا کریں گے، آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مزید مشاورت سے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے گی،بعد ازاں بلاول چند گھنٹے بعد دوبارہ ملاقات کیلئے سربراہ جے یو آئی کی رہائشگاہ پر پہنچ گئے ،خورشید شاہ اور نوید قمر نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے کہاکسی کو منانے اور جھگڑنے کی بات نہیں جب ہم اور مولانا ایک ساتھ متفق ہوں گے تو دیگر جماعتوں سے بھی بات کریں گے ،مثبت باتیں ہوئیں ، امید ہے کہ ہم سب بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کر لیں گے ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی دونوں آئینی عدالت بنانا چاہتی ہیں اب اسکی تفصیلات ہم مل بیٹھ کر طے کر لیں گے۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ امریکا سے واپسی تک آئینی ترمیم کو موخر کردیا ہے ،شہباز شریف 21 ستمبر کو بیرون ملک روانہ ہوں گے ، پہلے حصے میں لندن جائینگے ،23 ستمبر کو نیویارک پہنچیں گے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن میں حصہ لیں گے ،سائیڈلائنز پر وزیراعظم کی متعدد ملاقاتیں ہونگی جبکہ جنرل اسمبلی سے خطاب 26 ستمبر کو ہوگا،وزیراعظم 28 ستمبر کو علی الصبح وطن واپس پہنچیں گے ۔ سینیٹ میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے کہا نمبرز پورے ہیں ، مولانا نے وقت مانگا ہے ، آئینی ترامیم قومی اسمبلی کے نئے سیشن میں پیش کی جائیں گی، فضل الرحمن کو ترامیم پر کوئی اصولی اختلاف نہیں ، مولانا کی دو باتیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ ہمیں وقت دیا جائے اور دوسری وہ نمبرز پر اپنا اطمینان چاہتے ہیں،نمبر گیم کی حد تک کوئی مسئلہ نہیں ۔پی ٹی آئی ارکان کے پاس ضمانت دینے کے لئے کوئی اتھارٹی نہیں تھی، پی ٹی آئی والے یہاں متفق ہوکر اڈیالہ چلے بھی جائیں اور بانی پی ٹی آئی کہے میں نہیں مانتا تو بات ختم ہو جائے گی، پی ٹی آئی کی مجبوری ہم سمجھتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ترمیم کو مکمل اتفاق رائے کے بعد پیش کیا جائے گا،پچھلے چند دنوں سے آئینی ترامیم سے متعلق ایک ڈرافٹ گردش کرتا رہا میڈیا میں بھی آیا اور مختلف رہنماؤں کے ملاقاتوں میں بھی زیر بحث آیا۔ آئینی ترامیم کے معاملے میں کوئی سیاست نہیں، ترامیم آئین میں عدم توازن دور کرنے کے لیے ہے ، رکن پارلیمنٹ کے حیثیت سے آئین ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کی سربلندی کا کام کریں جبکہ قانون سازی اور آئین کی حفاظت کرنا ہمارا حق ہے ۔ یہ ڈرافٹ حکومتی اتحادکی دانست میں آئین کو بہتر کرنے کی کوشش تھی، اس دستاویز میں آئینی عدالت سے متعلق تجویز ہے ، یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوگا بلکہ بہت سے جمہوری ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اس پر تجاوز کرلے گی۔ ادارے کی عزت و تکریم جو آئین دیتا ہے اس کو یقینی بنانا چاہتے ہیں، یہ کسی ایک شخص یا پارٹی کو مضبوط بنانے کیلئے نہیں ہے ، آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی تجویز ہے ،آئینی عدالت کی ضرورت کا ذکر بھی میثاق جمہوریت میں ہے ، پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا مجھے انتہائی افسوس ہے جس طرح آج اس پارلیمان کی بے توقیری کی گئی اور اس پارلیمنٹ کو ربڑ سٹمپ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، پارٹی کے تمام ایم این ایز کی بہادری کو سلام پیش کرتا ہوں، خاص طور پر مولانا فضل الرحمن کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمت سے حالات کا مقابلہ کیا اور محمود اچکزئی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

پوچھنا چاہتا ہوں وزیر قانون کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کوئی مسودہ نہیں ، اگر وزیر قانون کو پتا نہیں، حکومتی نمائندوں کو پتا نہیں تو یہ ڈرافٹ کہاں سے آیا؟ سب سے زیادہ افسوس پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو زرداری پر ہے ، جن کو سارا علم تھا، اس میں 56 ترامیم پیش کی گئیں، یہ بتائیں کہ آرٹیکل 8 اور 99 اس میں ترامیم کا کہا گیا تھا، یہ تو بنیادی شہری حقوق کو بھی سلب کرنا چاہتے ہیں۔اگر ترامیم لانی ہیں تو بالکل لائیں مگر اس پر بحث کریں، رات کی تاریکی میں چھٹی والے دن چوری کی طرح کیا یہ ترامیم پاس کرنی ہوتی ہیں، کیا یہ رات کے اندھیرے میں ڈاکا ڈالنے کی کوشش نہیں تھی، جس طرح یہ قانون سازی کی جارہی تھی تو اس سے مرنا بہتر تھا۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا حکومت ایسا قانون لا رہی ہے جسکے مطابق مقررہ مدت میں مقدمے کا فیصلہ نہ کرنے والے ججز کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی۔

آئینی ترامیم دلیری کے ساتھ لے کر آئیں گے ، اپوزیشن نے گھبرانا نہیں ، آئینی ترمیم میں کوئی نئی بات نہیں، یہ میثاقِ جمہوریت کا حصہ ہے ، ہم اپنی مخالفتوں اور ٹائمنگ کی وجہ سے اپنی داڑھیاں کھینچتے رہتے ہیں اور اپنی ساری طاقت جا کر جھولی میں ڈال کر آجاتے ہیں، آئینی عدالت کے قیام کی تجویز کو فوری چیف جسٹس سے جوڑ دیا گیا، اسکی منفی تشریح کی گئی ، چیف جسٹس کو نہیں پارلیمنٹ کو دیکھنا ہے کہ ملک کیسے چلنا ہے ، چیف جسٹس نے بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہیں دینا، چیف جسٹس نے نہیں بتانا کہ کون سی سیاسی جماعت نے کیسے چلنا ہے ،آئینی عدالت کی شکل کیا ہوگی، اس میں 7 سے 8 ججز ہونگے جس میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہو جبکہ آرٹیکل 184 کو ریگولیٹ کریں گے ،ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن کو 12 رکنی کرنے کی تجویز دی گئی جبکہ کمیشن میں 6 ججز، چار اراکین پارلیمنٹ، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کو شامل کرنے کی تجویز تھی۔ فوجداری مقدمات، دیوانی مقدمات، بینکنگ اور سروس ٹربیونل کے مقدمات سپریم کورٹ آتے ہیں جبکہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنے مسائل بھی سپریم کورٹ جاتے ہیں اس لیے اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنا اختیار دیوار کے اس پار دے دیا ہے ،ابھی تو ہم ضابطہ فوجداری کا پیکیج لا رہے ہیں جس میں گرفتاری سے لیکر ایف آئی آر اندارج، چالانوں کے داخلے ، پراسیکیوشن کے کردار ، ضمانتوں اور مقدمات کے فیصلوں تک 90 ترامیم شامل ہیں، ٹرائل کی ٹائم لائن سے لیکر ایک سال تک جج کو فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ اس جج کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی۔

جس بار کونسل نے اسکی مخالفت کی میں ذمہ دار ہوں گا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ ایسا تاثر دیا گیا کہ ایک پارٹی کی جیت ہوئی ہے اور ایک کی شکست ، اگر جیت ہوئی ہے تو پوری پارلیمنٹ کی ہوئی اور اگر شکست ہے تویہ بھی پارلیمان کی ہے ،تصور ٹھیک ہوگا توذاتی شخصیات کی بات نہ کریں کہ یہ جج آئے گا تو ہمارے فائدہ کا ہوگا یا یہ جج ہمیں نقصان دے گا، تمام ججز قابل احترام ہیں، اگلے چیف جسٹس منصور شاہ کے لیے بھی ہمارے دل میں اتنی ہی عزت ہے ۔ اگر اچھی چیز بھی غلط طریقے سے کرنے جائیں تو اسکے نقصانات ہوتے ہیں،ہم سب کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔متحدہ کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے پارلیمنٹ میں میڈیا سے گفتگو میں کہا آئینی ترمیم کے وسیع تر مقاصد ہیں، تمام سیاسی جماعتوں میں اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کیاجائے ،آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ یااسکے نکات پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی میں پیش کرنا چاہئے تھے تاکہ اتفاق رائے پیداکرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ، اتحادی ہیں تو یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ہلکا لیا جائے ، آئینی ترمیم میں بلدیاتی حکومت کو بااختیار بنانے کے لئے ایم کیو ایم کے مسودے کو بھی شامل کیا جائے ۔ مسلم لیگ ن سیاست کرنا بھول گئی ہے تو ایم کیو ایم سیاست سکھانے کیلئے تیار ہیں۔

جے یو آئی رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر نے کہا لگتا ہے ترامیم لانے کی بات ہورہی تھی لیکن نمبر پورے نہیں تھے اگر عوام کی فلاح کیلئے کوئی چیز لارہے ہیں تو سب سپورٹ کریں جب خدشہ ہو کہ کسی خاص شخص کیلئے قانون سازی ہورہی ہے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے بدقسمتی ہے کہ ایسے قوانین بن جاتے ہیں اور ہمیں بھگتنا بھی پڑتا ہے ہمیں ایسے قانون بنانے چاہئیں جس میں ہم سب سرخرو ہوں آپ وقت دیں ترامیم لانے اور بحث کا موقع دیں پھر اتفاق ہوگا تو حمایت کریں گے اور ووٹ دیں گے اتفاق نہیں ہوگا تو مخالفت کرینگے حکومت میں ہوتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے فاٹا کی ترمیم پر مخالفت کی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں